اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

تفسیر میں فہم صحابی حجت نہیں؟

سوال

اصول تفسیر کے متعلق اک سوال ہے کہ اگر فہم صحابہ و فہم سلف بلکل ہی حجت نہیں . تو اگر کسی قرآنی آیت کی تفسیر کرنی ہو اور اسکی تفسیر ہمیں قرآن کی کسی اور آیت یا حدیث رسول سے نہ ملے اور صحابی سے اس آیت کی تفسیر مل جائے تو کیا اب بھی اس صحابی کا اس آیت کے متعلق وہ فہم حجت ہوگا یا نہیں ؟ کیوں کہ قرآن و سنت سے تو ٹکرانا تو دور کی بات ، اس سے تو اسکی دلیل مل ہی نہیں رہی ۔
مثال کے طور پر جیسا کہ آیت تحکیم کی تفسیر میں ابن عباس رضی الله عنہ کی تفسیر پیش کر کے تکفیری فکر کے افراد کا رد کیا جاتا ہے کہ یہ کفر دون کفر ہے ...!!!
تو کیا ایسی صورت میں اس صحابی کا فہم حجت ہے یا نہیں ؟؟؟
اور اس سے بھی اک قدم اور آگےاگر اسکی تفسیر صحابی سے بھی نہ ملے توکیا اب بھی وہ فہم سلف پہ اسکو پرکھنا ضروری نہیں ؟؟؟

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

اگر کسی کو کسی آیت یا حدیث کی تفسیر وتشریح آیت یا حدیث سے نہ مل رہی ہو تو اللہ تعالى نے حکم دیا ہے :

فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھ لو ۔

(الأنبیاء : ۷)

لہذا جسے قرآن یا حدیث کی تشریح وتوضیح قرآن یاحدیث سے نہیں مل رہی وہ ایسے شخص سے پوچھ لے جسے اس آیت یا حدیث کی تشریح وتفسیر قرآن وحدیث سے مل گئی ہے ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کفر دون کفر کی بنیاد بھی قرآن وحدیث میں موجود ہے ۔

قرآن میں اللہ تعالى نے فرمایا ہے :

وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا

ور جو بھی کسی بھی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اسکا بدلہ جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ رہے گا , اور اس پر اللہ کا غضب ہوگا اور وہ رحمت سے محروم ہوگا اور اسکے لیے اس نے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

(النساء :93)

جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤمن کا قتل شاید ابدی جہنمی اور کافر ہے ۔

لیکن اللہ تعالى نے فرمایا ہے :

وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا

او ر اگر مؤمنوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں ...

(الحجرات : ۹)

جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤمنوں کے آپس میں قتل وقتال کرنے والے دونوں گروہ مؤمن ہی رہتے ہیں کافر نہیں ہوتے ۔ اور سابقہ آیت میں جنہیں ابدی جہنم کی وعید سنائی گئی ہے وہ مسلمان قاتل نہیں بلکہ مسلمان کو قتل کرنے والا کافر قاتل ہے ۔

تو ثابت ہوا کہ کچھ کفر , دون کفر بھی ہے ۔ یعنی کفر اصغر بھی ہے ۔

اسی طرح حدیث مبارکہ میں ہے :

سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ

مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔

(صحیح بخاری : ۴۸)

جس سے مسلمان سے قتل وقتال کرنا کفر معلوم ہوتا ہے ۔

لیکن رسول اللہ کا فرمان :

إِذَا التَقَى المُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَالقَاتِلُ وَالمَقْتُولُ فِي النَّارِ

جب دو مسلمان آپس میں اپنی تلواریں لے کر لڑیں تو قاتل و مقتول دونوں جہنم میں ہیں۔

(صحیح البخاری : ۳۱)

یہ واضح کرتا ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں رہتے مسلمان ہی ہیں۔ کیونکہ لڑنے والوں کو مسلمان ہی کہا جا رہا ہے ۔

تو اس سے بھی ثابت ہوا کہ یہ کام کفر تو ہے لیکن کفر مخرج عن الملہ نہیں بلکہ اس سے بندہ مسلم ہی رہتا ہے , کافر نہیں ہوتا ۔ تو کفر دون کفر ثابت ہوگیا۔

اسی طرح خاوندوں کی نافرمانی سے متعلق رسول اللہ  کا فرمان " وتكفرن العشير" بھی کفر دون کفر پر دلالت کرتا ہے ۔ کیونکہ یہ کفر خاوندوں کا ہے اللہ کا نہیں ۔

اسی طرح آیت :

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ

اور جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی کافر ہیں۔

[المائدة : 44]

میں بھی ذکر کردہ کفر دون کفر ہونے کی دلیل قرآن مجید فرقان حمید ہی میں موجود ہے ۔ اللہ تعالى کا فرمان ہے :

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

اور جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی ظالم ہیں۔

[المائدة : 45]

نیز فرمایا:

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

اور جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی فاسق ہیں۔

[المائدة : 47]

یعنی اللہ سبحانہ وتعالى نے شریعت کے خلاف فیصلہ کرنے والوں کو کافر کے علاوہ ظالم اور فاسق بھی قرار دیا ہے ۔  جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلاف شریعت فیصلہ بھی بسا اوقات کفر اکبر نہیں ہوتا بلکہ کفر اصغر یا کفر دون کفر یعنی فسق (نافرمانی) یا ظلم بھی ہوتا ہے ۔

یعنی سلف کے ہر صحیح قول پر قرآن وحدیث سے دلیل موجود ہوتی ہے ۔ تو اس میں بھی اصل حجت اور دلیل قرآن وحدیث ہی ہوتا ہے ۔ نہ کہ فہم سلف یا قول سلف !

اور اگر سلف کے کسی قول پر قرآن وحدیث کی دلیل نہ ہو تو وہ صحیح ہی نہیں ہوتا , بلکہ وہ باطل ہوتا ہے !

خوب سمجھ لیں ۔

اور آپ کے علم میں اضافہ کے لیے عرض ہے کہ

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی فہم صحابی کو حجت نہیں جانتے تھے !

اسکے بھی بہت سے دلائل ہیں ۔ مثلا :

ایک مرتبہ ایک شخص ابو موسى اور سلیمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہما سے ایک مسئلہ پوچھا تو ان دونوں نے اس مسئلہ کا حل بتایا اور کہا کہ جا کہ ابن مسعود رضی اللہ سے بھی یہ مسئلہ پوچھ لو وہ بھی ہماری موافقت کریں گے ۔ وہ گیا اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا اور ان دونوں کا فتوى بھی سنایا تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے :

قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ، وَلَكِنِّي أَقْضِي فِيهِمَا كَمَا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

اگر میں انکی موافقت کروں تو میں گمراہ ہو جاؤں گا , اور ہدایت یافتگان میں سے نہیں رہوں گا ! ۔ میں تو اس بارہ میں وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے ۔

جامع الترمذی : ۲۰۹۳

صرف یہی نہیں اور بھی اسکی بہت سی مثالیں کہ صحابی نے ایک فتوى دیا تو دوسرے صحابی نے اسکی دلیل کی بنیاد پر مخالفت کی ۔ وقت فرصت ان شاء اللہ کبھی ایسے واقعات جمع کر دیں گے ۔

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الاربعاء PM 08:10
    2022-01-19
  • 952

تعلیقات

    = 9 + 6

    /500
    Powered by: GateGold