اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

تقلید کیا ہے؟ اور یہ کیوں حرام ہے ؟

سوال

تقلید کیا ہے؟ اور یہ کیوں حرام ہے ؟

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

کتاب وسنت کے منافی کسی کی بات ماننے کو تقلید کہتے ہیں ۔

اس تعریف سے ہی تقلید کی حرمت کا سبب واضح ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ ہر کلمہ گو جانتا ہے کہ کتاب وسنت کی مخالفت کرنا شریعت اسلامیہ میں حرام ہے، بلکہ بعض حالات میں یہ کفر بن جاتا ہے ۔ قرآن اور حدیث میں اس موضوع پر بہت سے دلائل موجود ہیں جو وحی الہی کی مخالفت سے منع کرتے ہیں اور مخالفت کرنے والے کو وعید سناتے ہیں ۔

اور یہی وہ تقلید ہے جسے سلف وخلف میں سے ہر صاحب انصاف نے حرام یا کفر وشرک قرار دیا ہے۔ مگر صد افسوس کہ یہ تقلید ہمارے برصغیر پاک وہند میں بھی پائی جاتی ہے ۔ ایسے مقلدین کی بے شمار مثالیں ہیں جن کے سامنے حق بات کھل کر واضح ہو جاتی ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے تقلیدی مزاج کے مطابق باطل پر ڈٹے رہتے ہیں ، بطور نمونہ چند مثالیں پیش خدمت ہیں :

بیع خیار کے مسئلہ میں مولوی محمود حسن صاحب دیوبندی نے لکھا ہے :

" الحق والإنصاف أن الترجیح للشافعی فی هذه المسئلة لکن نحن مقلدون  یجب علینا تقلید إمامنا أبی حنیفة رحمه الله " 

" حق اور انصاف کی بات یہی ہے کہ اس مسئلہ میں ترجیح امام شافعی کو ھے لیکن ہم مقلدین ہیں ہمارے اوپر ہمارے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید واجب ہے ۔ "

[تقریر ترمذی: ص 36]

اسی طرح نبی کریم ﷺ کی صحیح اور صریح حدیث ہے کہ :

«مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ، وَمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ العَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَكَ العَصْرَ»

" جس نے صبح کی ایک رکعت سورج کے طلوع ہونے سے پہلے پا لی اس نے لازماً صبح کی نماز پالی اور جس نے ایک رکعت عصر کی ، سورج غروب ہونے سے پہلے پالی تو اس نے لازماً نماز عصر پالی ۔ "

[ صحیح البخاری : 579 ]

یہ حدیث بڑی واضح ہے کہ فجر کی ایک رکعت سورج طلوع ہونے سے پہلے پڑھ لی یا عصر کی ایک رکعت سورج غروب ہونے سے پہلے پڑھ لی تو اس نے صبح اور عصر کی نماز پالی ہے ، جبکہ احناف کے علماء کے نزدیک صبح کی نماز باطل ہو جاتی ہے جبکہ عصر کی نماز باطل نہیں ہوتی ۔ 

[ مختصر القدوری ص 97 ط مکتبہ البشری ، الھدایۃ : 1/85 ]

حنفی علماء نے اس حدیث کا جواب دینے کی کوشش کی ہے جس کا تذکرہ کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی لکھتے ہیں :

" حدیث باب حنفیہ کے بالکل خلاف ہے مختلف مشائخ حنفیہ نے اس کا جواب دینے میں بڑا زور لگایا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی شافی جواب نہیں دیا جا سکا یہی وجہ سے کہ حنفیہ کے مسلک پر اس حدیث کو مشکلات میں سے شمار کیا گیا ہے ۔ " 

[درس ترمذی : 1/434 ]

اور اس بحث کے آخر میں لکھتے ہیں :

" حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ میں حنفیہ کی طرف سے کوئی ایسی توجیہ احقر کی نظر سے نہیں گزری جو کافی اور شافی ہو اس لئے حدیث کو توڑ موڑ کر حنفیہ کے مسلک پر فٹ کرنا کسی طرح مناسب نہیں ، یہی وجہ سے کہ حضرت گنگوہی نے فرمایا کہ اس حدیث کے بارے میں حنفیہ کی تمام تاویلات باردہ ہیں اور حدیث میں کھنچ تان کرنے کی بجائے کھل کر یہ کہنا چاہیے کہ اس بارے میں حنفیہ کے دلائل ہماری سمجھ میں نہیں آ سکے اور ان اوقات میں نماز پڑھنا ناجائز تو ہے لیکن اگر کوئی پڑھ لے تو ادا ہو جائے گی ۔ " 

[درس ترمذی : 1/439-440 ناشر مکتبہ دار العلوم کراچی نمبر 14 ]

 

مفتی تقی عثمانی صاحب کی اس وضاحت سے معلوم ہو گیا کہ بڑے بڑے حنفی اکابر علماء نے صحیح صریح حدیث کو توڑ موڑ کر اپنے مذہب کے مطابق بنانے کی سعی لا حاصل کی ہے لیکن ان کی نظر میں کوئی تسلی بخش ، شافی و کافی جواب بن نہیں پڑا اور اسے حنفیہ کے ہاں مشکلات میں سے شمار کیا گیاجیسا کہ علامہ زیلعی بھی لکھا ہے ۔

[ دیکھیے نصب الرایۃ : 1/229 ]

سو معلوم ہوا کہ کتنے ایسے مقلد علماء ہیں جنہیں حق کی معرفت ہو جاتی ہے مگر وہ تجمد تقلیدی اور تعصب مذہبی کی بناء پر صحیح احادیث رسول پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں ۔

اور یہی تقلید ہے جسے حرام، یا کفر،  یا شرک، کہا جاتا ہے !

رہی بات  کتاب وسنت کے موافق کسی کی بات ماننے کی ، تو ہم اسے تقلید  نہیں کہتے ، بلکہ اسے اتباع سے تعبیر کرتے ہیں ۔ کیونکہ کتاب وسنت میں اس کے لیے "اتباع" کا لفظ  استعمال کیا  گیا ہے ۔

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الخميس PM 12:22
    2022-01-20
  • 1609

تعلیقات

    = 5 + 9

    /500
    Powered by: GateGold