اعداد وشمار
مادہ
فہم سلف کیا ہے؟ اور وہ حجت کیوں نہیں؟
سوال
فہم سلف کیا ہے ؟ اور آپ اسے کیوں حجت تسلیم نہیں کرتے ؟ اور یہ بھی واضح کریں کہ کسی چیز کو دین میں حجت ماننے کا معنى کیا ہوتا ہے ؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
۱۔ فہم سمجھ کو کہتے ہیں ، جو بات کسی کو سمجھ آئے وہ اسکی فہم ہوتی ہے ۔ اور کسی کی فہم کیا ہے ؟ اسکا اندازہ اسکے اقوال سے ہی ہوتا ہے ۔ یعنی کسی بھی شخص کے کتاب وسنت کی تشریح وتوضیح میں اقوال اسکی فہم کہلاتے ہیں ۔
سلف صالحین کا عمل یا انکے اقوال سلف کا فہم کہلاتے ہیں ۔
کچھ لوگ فہم سلف کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں :
’’فہم سلف‘‘ سے مراد قرون مفضلہ میں اللہ تعالی کی خوشنودی اور مراد کو پانے کے لیے نصوصں شرعیہ سے جو کچھ سیکھا، سمجھا اور مستنبط کیا گیا فہم سلف کہلاتا ہے اس کا تعلق علمی مسئلہ سے ہو یا عملی ۔
یا پھر:
نصوص شرعیہ کی تفہیم میں جو کچھ صحابہ ،تابعین و تبع تابعین کے اقوال و اعمال منقول ہوئے ہیں فہم سلف کہلاتے ہیں بشرطیکہ نص سے مخالفت نہ ہو اور نہ ہی کسی دوسرے صحابی نے اس فہم سے اختلاف کیا ہو۔
اور اس تعریف کا خلاصہ وہی ہے جو میں نے بیان کیا کہ :
کتاب وسنت سے سلف نے جو سمجھا ہے وہ انکے اقوال وافعال سے ظاہر ہے ۔ انکے وہ اقوال وافعال انکا فہم کہلاتے ہیں ۔
اور یہ دین میں حجت نہیں ۔ ماخذ شریعت یا حجت صرف اور صرف کتاب وسنت یعنی وحی الہی ہے ۔
۲۔ اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالى نے ہمیں صرف اور صرف وحی الہی کی اتباع کا حکم دیا ہے اور دیگر اولیاء کی اتباع سے منع فرمایا ہے :
اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ
جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے صرف اس ہی کی پیروی کرو اور اسکے سوا دیگر اولیاء کی پیروی نہ کرو ، تم کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو ۔
(الاعراف : ۳)
اس وجہ سے ہم وحی الہی کے سوا کسی بھی چیز کو دین میں حجت نہیں جانتے ۔ ہاں ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ زمانہ نبوی سے قرب رکھنے والے لوگ ہم سے علم میں زیادہ تھے ، اور انہیں اللہ نے استنباط واستدلال کی قوت ہم سے زیادہ دے رکھی تھی ، سو انکے مستنبط مسائل اقرب إلى الصواب ہوتے ہیں ، لیکن بہر حال وہ محتمل للخطأ بھی ہیں ۔ سو ہم انکے مسائل مستنبطہ کو کتاب وسنت پر ہی پیش کریں گے ۔ انکے اقوال وافعال کو حجت نہیں جانیں گے ۔ بلکہ حجت کتاب وسنت کو ہی مانیں گے ۔ سلف کے جو اقوال کتاب وسنت کے موافق ہوئے وہ سر آنکھوں پر اور جو موافق نہ ہوئے وہ رد کیے جانے کا ہی حق رکھتے ہیں ۔
اور سلف صالحین و صحابہ کرام کا منہج یہی تھا کہ وہ ہر کسی کی بات کو قرآن وحدیث پر پیش کرتے ، جو موافق ہوتی اسے مانتے اور جو موافق نہ ہوتی اس سے برأت کا اظہار کرتے ۔
اسی بات کو امام مالک رحمہ اللہ یوں بیان فرمایا کرتے تھے :
كل يؤخذ قوله ويرد، إلا صاحب هذا القبر
یعنی ہر کسی کی بات کو قبول یا رد کیا جاسکتا ہے ، سوائے اس صاحب قبر یعنی رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی بات کے ۔
۳۔کسی بھی چیز کو دین میں حجت تسلیم کرنا کا معنى ہوتا ہے کہ اسے ہم نے شریعت کا ماخذ تسلیم کر لیا ہے ۔ اور اسے بلا چوں چرا تسلیم کرنا ہم پر واجب ہے ۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-     
الخميس PM  01:59   
 2022-01-20
- 2164





