اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

کون سا قیاس صحیح ہوتا ہے؟

سوال

قیاس کے صحیح ہونے کی کیا شرط ہے؟

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

قیاس کے صحیح ہونے کے لیے شرط ہے کہ مقیس اور مقیس علیہ کے مابین علت مشترکہ ہو ۔ یا تو وہ علت منصوصہ ہو یعنی نص میں علت بیان کی گئی ہو ، یا پھر علت بدیہی ہو ، یعنی دماغ لڑائے بغیر بات سنتے ہی فورا سمجھ آجانے والی ہو ۔

جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالى کے اس فرمان میں ہے :

فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا

تو انہیں تو اف بھی نہ کہہ اور نہ ہی انہیں ڈانٹ اور ان سے باعزت طریقہ سے ہم کلام ہو۔

[الإسراء: 23]

اس آیت مبارکہ میں والدین کو اف نہ کرنے کی علت غور و خوض کیے بغیر بداھۃً سمجھ آ رہی ہے کہ انہیں تکلیف دینے سے منع کی خاطر یہ حکم جاری کیا گیا ہے ۔ سو ہر وہ کام جس سے والدین کو تکلیف ہو اس آیت کی رو سے منع ہوگا۔

فقہاء اور مجتہدین کے اقوال قیاس کے لیے علت نہیں بن سکتے ، اگر ہم یہ باب کھول دیں تو ہر کوئی اپنی مرضی کی علت بناتا پھرے گا اور پھر قیاس در قیاس کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔

اس قیاس کو قیاس جلی کہتے ہیں اور اسی کا نام دلالت نص / فحوائے کلام/ فحوائے خطاب/ قیاس اولى/استدلال بالأولویہ بھی ہے۔

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الخميس PM 02:04
    2022-01-20
  • 872

تعلیقات

    = 9 + 7

    /500
    Powered by: GateGold