اعداد وشمار
مادہ
اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پہ کب اور کیسے نزول فرماتا ہے
سوال
حدیث میں ہے کہ الله کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کے الله رات کے آخری پہر میں دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کی الله لا مکان ہے اور الله زمانے کا بھی محتاج نہیں ؟ تو الله آسمان دنیا پہ کیسے نزول فرماتا ہے ؟ مزید یہ کہ اگر میں جزیرہ نما ہند میں ہوں تو یہاں رات ہے تو دوسرے ممالک میں صبح ہے ؟ یعنی ایک جگہ رات کا آخری پہر ہے تو اسی وقت دوسری جگہ رات کا وجود ہی نہیں ؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
پہلے تو یہ بات سمجھ لیں کہ اللہ تعالى ’’لا مکاں‘‘ نہیں ہے۔ اس نے اپنا مکان عرش بتایا ہے:
إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ
یقینا تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا پھر عرش پہ مستوی ہوا۔
سورۃ الأعراف: 54، سورۃ یونس:3
اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ
اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کیا ، جنہیں تم دیکھتے ہو،پھر عرش پہ مستوی ہوا۔
سورۃ الرعد: 2
الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى
رحمان عرش پہ مستوی ہے۔
سورۃ طہ: 5
الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ الرَّحْمَنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا
وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ا نکے درمیان ہے چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پہ مستوی ہوا، وہ رحمان ہے، اسکے بارے میں کسی پورے باخبر سے پوچھ۔
سورۃ الفرقان: 59
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ
اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور انکے درمیان کی اشیاء کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پہ مستوى ہوا۔
سورۃ السجدۃ: 4
هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ
وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور انکے درمیان کی اشیاء کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پہ مستوى ہوا۔
سورۃ الحدید : 4
نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے عرش کے مکان کی بھی وضاحت فرمائی ہے:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا دیگر امہات المؤمنین پہ فخر کرتے ہوئے کہا کرتی تھیں :
زَوَّجَكُنَّ أَهَالِيكُنَّ، وَزَوَّجَنِي اللَّهُ تَعَالَى مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَوَاتٍ
تمہاری شادیاں تمہارے گھر والوں نے کی ہیں جبکہ میری شادی اللہ تعالى نے سات آسمانوں کے اوپر سے کی ہے۔
صحیح البخاری: 7420
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ فِي الجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ، أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، مَا بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ، فَاسْأَلُوهُ الفِرْدَوْسَ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الجَنَّةِ وَأَعْلَى الجَنَّةِ - أُرَاهُ - فَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الجَنَّةِ
یقینا جنت میں سو دردجے ہیں جنہیں اللہ تعالى نے مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے تیار کر رکھا ہے، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان، لہذا جب تم اللہ سے مانگو تو اس سے فردوس مانگوکیونکہ وہ جنت کا سب سے اعلى اور اونچا درجہ ہےاس سے اوپر رحمان کا عرش ہے ، اور اسی (فردوس) سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔
صحیح البخاری: 2790
مذکورہ بالا دلائل کی رو سے ثابت ہوا کہ اللہ تبارک وتعالى عرش پہ مستوی ہے، اور اسکے نیچے جنت الفردوس ہے، جسکے نیچے دیگر جنتیں ہیں اور یہ بھی کہ عرش ساتوں آسمانوں سے اوپر ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ اللہ تعالى لا مکاں ہے یا اللہ کی کوئی جہت نہیں قرآن مجید، حدیث صحیح اور عقل صریح کے خلاف ہے۔
رہا اللہ تعالى کا رات کے آخری پہر نزول فرمانا تو وہ برحق ہے۔ البتہ اس نزول کی کیفیت چونکہ وحی الہی کے ذریعہ ہمیں بتائی نہیں گئی، سو ہم اس سے لا علم ہیں، اور یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کا نزول اسکے شایان شان ہے۔
رہا یہ سوال کہ دنیا میں ہر وقت کسی نہ کسی جگہ رات کا آخری پہر ہے تو یہ نزول کس وقت ہوتا ہے۔ تو اسکے بارے میں بھی چونکہ اللہ تعالى نے نہیں بتایا سو ہم اس سے بھی نا آشنا ہیں ، البتہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کا نزول رات کے آخری پہر میں ہوتا ہے۔
یہاں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ دنیوی طور پہ مخلوق کے لیے بہت سی چیزیں محال (ناممکن) ہیں لیکن اللہ تعالى کے لیے کچھ بھی نا ممکن نہیں۔ مثلا اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنے بارے میں فرمایا ہے:
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
وہی اول ہےاور آخر ہے اور ظاہر ہے اور باطن ہے اور وہ ہرچیز کو خوب جاننے والا ہے۔
سورۃ الحدید: 3
اور نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے اسکی وضاحت یوں فرمائی ہے:
اللهُمَّ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ
اے اللہ توہی اول ہے سو تجھ سے پہلے کوئی شے نہیں اور تو ہی آخر ہے سو تیرے بعد کوئی شے نہیں اور توہی ظاہر ہے سو تجھ سے اوپر کوئی شے نہیں اور تو ہی باطن ہے سو تجھ سے ما وراء کوئی شے نہیں۔
صحیح مسلم: 2713
جبکہ اگر عقل سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات سمجھ نہیں آسکتی کہ جو ظاہر ہو وہی باطن کیسے اور جو اول ہو وہی آخر کیسے۔ عقلا یہ بات محال ہے لیکن اللہ سبحانہ وتعالى اول ہونے کے باوجود آخر بھی ہیں اور ظاہر ہونے کے باوجود باطن بھی!
ایمان باللہ کا تقاضا ہے کہ جس طرح اللہ سبحانہ وتعالى نے خود اپنے بارے میں بتایا ہے یا رسو ل اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے، اسکے متعلق من وعن ویسا ہی ایمان وعقیدہ رکھا جائے، اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑائے جائیں وگرنہ انسان گمراہی کی دلدل میں پھنس جاتا ہے،کیونکہ ہماری عقلیں کوتاہ ہیں ۔
خرد کی راہ سے جو نکلے ان کو ڈھونڈنے
منزل ایقاں سے وہم وگماں پہ آگئے
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-     
الاربعاء PM  04:28   
 2022-01-12
- 1070





