اعداد وشمار
مادہ
کیا ان دلائل سے فہم صحابہ کی حجیت ثابت نہیں ہوتی؟
سوال
ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ جو میرے رستے اور میرے صحابہ کے رستے پر ہوگا وہی فرقہ ناجیہ ہوگا اوردوسری حدیث ہے کہ میری سنت اور میرے خلفا کی سنت کو لازم پکڑو . اور تیسری مشہور حدیث کہ میرے صحابہ میں سے جسکی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے . .تو کیا نبیﷺ کے ان فرامین کے ساتھ صحابہ کے فہم کی حجیت ثابت نہیں ہوتی ؟ اور اک قول حضرت عمر کا بھی سنن دارمی میں کہ جب تم سے کوئی قرآن کی ملی جلی آیتوں سے بحث کرے تو تم اسکو صحابہ کی طرف لوٹا دو کیوں کہ صحابہ قرآن کو تم سے بہتر جانتے تھے. اور اک واقعہ پیش کیا جاتا ہے ابن عباس کا خوارج کے ساتھ مناظرے میں کہ انہوں نے کہا تھا کہ صحابہ قرآن زیادہ جانتے ہیں یا تم...!! ان دلائل سے ثابت کرتے ہیں کچھ علماء کہ صحابہ کا فہم حجت ہے ،الا یہ کہ حدیث سے ٹکراے نہ ۔!!!!
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
تیسری روایت تو ثابت ہی نہیں ہے ۔
اور پہلی دونوں روایات میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی سنت اور خلفاء راشدین کی سنت یا میرا اور میرے صحابہ کا رستہ در حقیقت ایک ہی چیز ہے ۔
یعنی جو رستہ نبی کا ہی وہی صحابہ کا ! ۔ اور جوسنت نبی کی ہے وہی خلفائے راشدین کی ! ۔ اس سے تو بات اور بھی زیادہ سکڑ گئی ہے ۔ یعنی وہ رستہ اپناؤ جسے میں نے بھی اپنایا اور صحابہ نے بھی اپنایا ، اور وہ سنت اپناؤ جسے میں نے بھی اپنایا اور میرے خلفائے راشدین نے بھی اپنایا ۔ یعنی نبی کی سنت اور خلفاء کی سنت در اصل ایک ہی سنت ہے ۔ یہ نہیں کہ نبی کی سنت الگ ہو اور خلفاء کا طریقہ الگ ہو یا باالفاظ دیگر ایک ایساطریقہ جو صرف صحابہ یا خلفاء کا ہو نبی کا نہ ہو تو اسے اپنانے کا حکم نہیں دیا جارہا ۔
اسی کی مثال قرآن مجید میں بھی ہے ۔ اللہ تعالى نے فرمایا ہے :
أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ
کیا تم اس وقت حاضر تھے جب یعقوب علیہ السلام کی موت کا وقت قریب آیا ۔ جب اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے ۔ تو انہوں نے کہا ہم آپکے الہ ، اور آپکے آباء ابراہیم ، اسماعیل اور اسحاق کے الہ کی عبادت کریں گے ، جو کہ ایک ہی ا لہ ہے اور ہم اسکے لیے فرمانبردار ہونے والے ہیں ۔
(البقرۃ : ۱۳۳)
تو اس آیت میں یعقوب علیہ السلام کی اولاد کا کہنا " ہم آپکے الہ ، اور آپکے آباء ابراہیم ، اسماعیل اور اسحاق کے الہ کی عبادت کریں گے" یہ معنى نہیں رکھتا کہ انکے الہ الگ الگ ہیں ۔ بلکہ خود انہوں نے اپنے الفاظ سے ہی وضاحت کردی کہ یہ ایک ہی الہ ہے جو سب کا الہ ہے ۔
یہی معاملہ ان احادیث نبویہ میں بھی ہے ۔ کہ میرا راستہ اور میرے صحابہ کا راستہ یا میری سنت اور میرے خلفاء کی سنت ۔ یعنی وہ سنت جو ہم سب کی ہے یا وہ راستہ جو ہم سب کا ہے ۔ تو اس سے صحابہ کے فہم یا قول کی حجیت نہی بلکہ عدم حجیت ثابت ہوتی ہے ۔
اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان وہ مفہوم جو میں نے بیان کیا ہے ، صحابہ نے بھی یہی سمجھا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جب زوراء پر جمعہ کے دن آذان دینے کا حکم دیا تو سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بدعت قرار دیا ۔ وہ فرماتے ہیں :
الْأَذَانُ الْأَوَّلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِدْعَةٌ
جمعہ کے دن پہلی آذان بدعت ہے !
(مصنف ابن ابی شیبۃ: 5437، 5441 )
اور نہ صرف یہ کہ صحابہ نے اسے بدعت کہا بلکہ تابعین نے بھی اسے بدعت قرار دیا جن میں حسن بصری رحمہ اللہ سرفہرست ہیں وہ فرماتے ہیں :
النِّدَاءُ الْأَوَّلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ الَّذِي يَكُونُ عِنْدَ خُرُوجِ الْإِمَامِ، وَالَّذِي قَبْلَ ذَلِكَ مُحْدَثٌ
جب امام خطبہ کے لیے نکلتا ہے وہی جمعہ کی پہلی اذان ہے اور جو اس سے پہلے دی جاتی ہے وہ بدعت ہے ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ : 5435)
یہی بات امام زہری رحمہ اللہ نے ا ن الفاظ میں کہی :
أَوَّلُ مِنْ أَحْدَثَ الْأَذَانَ الْأَوَّلَ عُثْمَانُ
عثمان رضی اللہ عنہ وہ ہیں کہ جنہوں نے سب سے پہلے (جمعہ کی )پہلی آذان کی شروع کروائی ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ : 4538 ،5440)
ان تمام تر لوگوں کو معلوم تھا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ راشد ہیں ، اور انہوں نے ایک ایسا کام کیا ہے جس سے ممانعت کی کوئی واضح نص رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے موجود نہیں ہے ۔ وہ انکے اس عمل کو خلیفہ راشد کی سنت قرار دے سکتے تھے ، مگر انہوں نے اسے خلیفہ راشد کی سنت نہیں بلکہ خلیفہ راشد کی "بدعت" قرار دیا ۔ اور اسکا انکار کیا ۔ کیونکہ یہ عمل رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے فرمان "من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد" کے عموم میں شامل ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔
لہذا اس امر کی وضاحت سے ثابت ہوا کہ صحابہ و تابعین بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایسے اقوال وافعال کو جن پر کتاب وسنت کی دلیل موجود نہ ہو ، بدعت قرار دیتے تھے اور انہیں حجت نہیں جانتے تھے بلکہ اسے رد ہی کیا کرتے تھے ۔ اور اسی بات سے فہم صحابہ اور منہج صحابہ کے مابین فرق بھی واضح ہو جاتا ہے ۔
صرف یہی نہیں اسکی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال وافعال کو قرآن وسنت کے میزان میں تولا ہے ۔ اور جو وحی الہی کے موافق ہوا اسے مان لیا اور جو نا موافق ہوا اسے ٹھکرا دیا ۔
تنبیہ بلیغ:
یہاں یہ بات یاد رہے کہ بدعت کے موجد یا بدعت کے مرتکب معین شخص کو بلا تحقیق بدعتی نہیں کہا جاسکتا ، جس طرح کفر وشرک کے مرتکب شخص کو بلا تحقیق کافر یا مشرک نہیں کہا جاسکتا، بلکہ اسکے کچھ اصول و ضوابط ہیں جنہیں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
تنبیہ ثانی:
بدعت کبھی گناہ صغیرہ ہوتی ہے ، کبھی گناہ کبیرہ ، اور کبھی اکبر الکبائر میں بھی شامل ہو جاتی ہے ۔ لہذا بدعت کی نوعیت مد نظر رکھنا ضروری ہے۔
تنبیہ ثالث :
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معصوم عن الخطأ نہیں تھے ، بلکہ بتقاضہء بشریت ان سے اخطاء سرزد ہو جاتی تھیں ، اور وہ اخطاء کبھی کبائر میں سے ہوتیں جیسا کہ کچھ اصحاب رسول کو تہمت، زنا ، شراب نوشی کی حد لگائی گئی، اور کبھی صغائر میں سے جن کی مثالیں بکثرت ہیں۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی اس بدعت کا تعلق بھی اجتہادی اخطأ کے ساتھ ہے۔
تنبیہ رابع:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ مقدس ہستیاں ہیں کہ اللہ نے انکے لیے رضامندی اور مغفرت کا ا علان انکی زندگیوں میں ہی فرما دیا تھا ۔ ان میں سے فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہونے والوں کو بعد والوں پر فوقیت حاصل ہے ۔ اور ان میں سے بھی بیعت رضوان میں شامل ہونے والوں کو باقیوں پر فضیلت ہے ، اور انکی نسبت اصحاب بدر افضل ہیں ، اور عشرہ مبشرہ کی فضیلت ان سے کہیں زیادہ ہے ، اور خلفائے راشدین کی منقبت سب سے بڑھ کر ہے ، ا ور خلفائے راشدین میں ابو بکر، عمر، عثمان، علی رضوان اللہ علیہم اجمعین بالترتیب فضیلت والے ہیں ۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے انکے لیے یہ فرما دیا تھا کہ آج کے بعد عثمان کوئی بھی عمل کر لے ، انہیں کوئی نقصان نہیں ۔
ان فضیلتوں اور اعلان ہائے مغفرت کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے ۔ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اگر بتقاضائے بشریت لغزش ہو بھی گئی تو وہ عند اللہ مغفور ومرحوم ہیں ۔ لہذا انکی لغزشوں پر انہیں مورد طعن کرکے روافض کے مشن کی تکمیل سے باز رہنا چاہیے۔
رہی بات سیدنا عمر کے سنن دارمی والے قول کی کہ جب تم سے کوئی قرآن کی ملی جلی آیتوں سے بحث کرے تو تم اسکو صحابہ کی طرف لوٹا دو کیوں کہ صحابہ قرآن کو تم سے بہتر جانتے تھے.
اور ابن عباس کا خوارج کے ساتھ مناظرےکی کہ انہوں نے کہا تھا کہ صحابہ قرآن زیادہ جانتے ہیں یا تم...!!
تو
اولا : یہ دلائل ، در اصل دلائل ہی نہیں ! ۔ کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال وافعال خود ہی حجت نہیں ہیں ، تو انہیں دلیل کے طور پر بھی پیش نہیں کیا جاسکتا ۔
ثانیا : عمر رضی اللہ عنہ یا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول میں یہ کہیں موجود نہیں ہے کہ تم صحابہ کی بات بلا دلیل مان لو !۔
صحابہ کی طرف لوٹانے کی بات انہوں نے اللہ تعالى کے حکم "فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون" پر عمل کرتے ہوئے کہی ہے ۔ تو اس صورت میں بھی حجت تو صرف وحی الہی ہی بنتی ہے ۔ کیونکہ اہل ذکر سے سوال کتاب وسنت کی دلیلوں کی روشنی میں ہی پوچھا جائے گا ۔ اور جب انکا جواب کتاب وسنت کی نص یا نص سے مستنبط ہوگا تو اس وقت دلیل کتاب وسنت ہی ہوگی نہ کہ انکا قول !
ثالثا: سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے خوارج کو جب یہ کہا تھا کہ" میں تمہاری طرف اصحاب رسول کے پاس سے آیا ہوں اور انہی کی موجودگی میں قرآن اترا اور وہ اس کی تفسیر کو تم سے زیادہ جانتے ہیں۔ تمہارے اندر ان میں سے کوئی نہیں ہے۔ میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں تاکہ ان کا پیغام تم تک پہنچاؤں اور تمہارا پیغام ان تک پہنچاؤں"۔ تو اس سے اہل علم کی فضیلت ظاہر کرنا مقصود تھی کہ صحابہ تم سے زیادہ قرآن اور اسکی تفسیر کو جانتے ہیں ۔ کیونکہ یہ بات کہنے کے بعد سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں کہا چونکہ وہ صحابی ہیں اور تم میں سے کوئی بھی صحابی نہیں لہذا انکی بات مان لو، بلکہ صحابہ کے موقف کو ان لوگوں کے سامنے پیش کیا اور اس پر کتاب وسنت سے دلائل دیے ۔ اور اسی طرح گفتگو شروع کرنے سے پہلے ہی جب خوارج نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے شاندار لباس پر اعتراض کیا تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں صحابی ہوں یہ میرا فہم ہے لہذا اسے حجت جانو ، بلکہ اپنے اس عمل کو کتاب اللہ کی آیت :
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللّهِ الَّتِيَ أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالْطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ
کہہ دیجئے کہ وہ زینت کو جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا فرمایا ہے ، اور پاکیزہ رزق کو کس نے حرام کیا ہے؟
[الأعراف : 32]
سے سند جواز فراہم کی ۔
الغرض سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا خوارج سے مناظرہ بھی اس بات پر روز روشن کی طرح دلالت کر رہا ہے کہ حجت کتاب وسنت ہی ہے ، کسی صحابی کا قول یا عمل نہیں !
خوب سمجھ لیں ۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-     
الخميس PM  02:10   
 2022-01-20
- 1852





