میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
اورل سیکس حرام کیوں؟
سوال
اورل سیکس کے حلال ہونے کے بارہ میں عرب علماء کے کچھ فتاوى نظروں سے گزرے ہیں ۔ ان میں سے بعض اسے حرام بھی قرار دیتے ہیں۔ حلال کہنے والوں کا موقف یہ ہے کہ معاملات میں اصل اباحت ہے۔ اور اللہ تعالى نے میاں بیوی کو ایک دوسرے سے استمتاع کا پورا حق دیا ہے۔ وہ جس طرح چاہیں ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اور جو اہل علم اس سے منع کرتے ہیں وہ صرف یہی کہتے ہیں کہ دین اسلام صفائی اور پاکیزگی کو پسند کرتا ہے۔ جبکہ یہ عمل اسکے منافی ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اس طرح کا سیکس دور نبوی اور خیر القرون کے دیگر ادوار سے ثابت نہیں۔ ہم نے آپکے کچھ فتاوى اسکی حرمت کے بارہ میں پڑھے جن میں آپ نے بھی اورل سیکس کی حرمت پر کوئی خاص دلائل نہیں دیے۔ برائے مہربانی اس بارہ میں مفصل فتوى بادلائل تحریر فرمائیں تاکہ اطمینان قلب حاصل ہو۔ جزاکم اللہ خیرا۔
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
اورل سیکس ( oral sex ) یعنی منہ کے ذریعہ جماع یا اعضاء تناسل کو منہ میں لینے کے بارہ میں حکم جاننے سے قبل چند شرعی اصولوں کو سامنے رکھیں:
1- دین اسلام طہارت وپاکیزگی کا درس دیتا ہے اور نجاست و گندگی سے دور رہنے کو لازم قرار دیتا ہے۔ اللہ تعالى کا فرمان ہے:
وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ
اور گندگی کو دور پھینک
[المدّثر : 5]
نیز فرمایا : إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
یقینا اللہ تعالى بہت زیادہ توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
[البقرة : 222]
2- دین اسلام ذی شان کاموں کا حکم دیتا اور گھٹیا اور رذیل کاموں سے منع کرتا ہے۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«إِنَّ اللَّهَ كَرِيمٌ يُحِبُّ الْكَرَمَ، وَمَعَالِيَ الْأَخْلَاقِ، وَيُبْغِضُ سَفْسَافَهَا»
یقینا اللہ تعالى باعزت ہے اور عزت ، اور اخلاق عالیہ کو پسند فرماتا ہے اور گھٹیا عادتوں کو ناپسند فرماتا ہے۔
مستدرک حاکم: 152
3- اسلام حلال اور پاکیزہ اشیاء کو کھانے کا حکم دیتا ہے اور خبیث کو حرام کرتا اور اس سے اجتناب کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ا للہ تعالى کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِي الأَرْضِ حَلاَلاً طَيِّباً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
اے لوگو! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ ہے اس میں سے کھاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، یقینا وہ تمہارا واضح دشمن ہے۔
[البقرة : 168]
4- دین اسلام میں جن چیزوں کو حرام کیا گیا ہے انکے قریب جانے سے بھی منع کر دیا گیا ہے اور ایسے امور جنکا حلال ہونا واضح نہیں ہے ان سے بھی دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالى کا فرمان ہے:
وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاء سَبِيلاً
اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ کیونکہ وہ فحاشی اور برا راستہ ہے۔
[الإسراء : 32]
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الحَلاَلُ بَيِّنٌ، وَالحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لاَ يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى المُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ: كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ، أَلاَ وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلاَ إِنَّ حِمَى اللَّهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ
حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے ، اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں، جنہیں بہت زیادہ لوگ نہیں جانتے ۔ تو جو ان مشتبہ امور سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا۔ اور جو شبہات میں داخل ہوگیا اسکی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو اپنی بکریوں کو ممنوعہ علاقہ کے قریب قریب چراتا ہے ، ہوسکتا ہے کہ اسکی بکریاں اس ممنوعہ علاقہ میں داخل ہو جائیں۔ خبردار! ہر حکومت کے کچھ ممنوعہ علاقے ہوتے ہیں اور اللہ تعالى کے ممنوعہ علاقے اسکے حرام کردہ امور ہیں۔
صحیح البخاری: 52
صحیح مسلم(1599) میں یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ ہے :
وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ
اور جو مشتبہ کاموں میں پڑ گیا ، وہ حرام میں داخل ہوگیا۔
یعنی مشتبہ امور سے بچنا بھی فرض ہے اور ان کاموں میں پڑنا حرام ہے۔
5- ضرر رساں اور نقصان دہ اشیاء کو شریعت نے حرام کیا ہے ۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ
نہ نقصان اٹھانا ہے اور نہ ہی نقصان پہنچاناہے۔
سنن ابن ماجه : 2340
6- جو کام مؤمن کے دل میں کھٹک جائے وہ گناہ ہے۔ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُوْلَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ
اور لیکن اللہ تعالى نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنایا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں مزین فرما دیا ہے ، اور کفر ،فسق، اور نافرمانی کو تمہارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا ہے۔ (جن کے دلوں کی یہ کیفیت ہو) وہی لوگ نیکوکار ہیں۔
[الحجرات : 7]
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذی شان ہے:
«الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ، وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ، وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ»
نیکی اچھا اخلاق ہے، اور گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں کھٹک جائے، اورلوگوں کے اس پر مطلع ہونے کو تو ناپسند کرے۔
صحیح مسلم: 2553
ان بنیادی اصولوں کو سمجھ لینے کے بعد اورل سیکس کی حرمت نکھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ کیونکہ
مذی مرد کی ہو یا عورت کی ناپاک ہی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اسے دھونے اور صاف کرنے کا حکم دیا ہے ۔اور بحالت شہوت مرد کے ذکر سے بھی اور عورت کی فرج سے بھی نکلنے والی رطوبت مذی کہلاتی ہے جو کہ نجس بھی ہے اور حرام بھی۔ ا گر کوئی مرد اپنی بیوی کی شرمگاہ چوستا یا چاٹتا یا اسے منہ لگاتا ہے تو اسکا منہ اس نجاست سے نہیں بچ سکتا۔ اسی طرح اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے ذکر (آلہ تناسل) کو منہ میں داخل کرے تو وہ بھی غلبہ شہوت کی بناء پر نکلنے والی مرد کی مذی سے نہیں بچ سکتی بلکہ وہ مذی انکے منہ میں داخل ہوکر لعاب کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے اور بسا اوقات لعاب نگلنے کی صورت میں معدہ تک بھی جاپہنچتی ہے۔ اور یہ نہایت ہی گھٹیا اور رذیل حرکت ہے۔جبکہ شریعت اسلامیہ نجاست سے دور رہنے کا حکم دیتی، نجس اور خبیث کو حرام قرار دے کر اسے کھانے پینے سے منع کرتی ، اور گھٹیا عادتوں سے بچنے کا حکم کرتی ہے۔
کوئی بھی مرد اس بات کا انکار نہیں کرسکتا کہ اسکے ذکر سے مذی نہیں نکلتی کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ہر مرد مذی خارج کرتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کسی کی مذی زیادہ خارج ہوتی ہے اور کسی کی کم، بہر دو صورت اورل سیکس کی حرمت ہی ثابت ہوتی ہے، کیونکہ اگر مرد کی مذی بہت ہی کم بھی نکلتی ہو تب بھی جس وقت ذکر اسکی بیوی کے منہ میں داخل ہوگا کوئی یقینی بات نہیں کہ مذی نہ نکلے ، بلکہ غالب گمان یہی ہے کہ مذی نکلے گی۔ اورشبہات میں پڑنے کو بھی شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ اور بسا اوقات غلبہ شہوت کی بناء پر میاں صاحب اپنی بیوی کے منہ میں ہی منی نکال دیتے (ڈسچارج ہو جاتے) ہیں جو کہ اس سے بھی قبیح عمل ہے۔ شریعت گندگی کو دور پھینکنے کا حکم کرتی ہے جبکہ اورل سیکس کرنے والے گندگی کو منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جدید میڈیکل سائنس بھی اس بات کو ثابت کر چکی ہے کہ اورل سیکس کے نتیجہ میں منہ کا سرطان (کینسر) پیدا کرنے والا وائرس (HPV) کا سبب بنتا ہے[1]۔ جبکہ شریعت اسلامیہ مضر صحت امور و اشیاء سے منع کرتی اور انہیں حرام قرار دیتی ہے۔
اور اسی طرح اورل سیکس ایسی برائی ہے کہ کسی مؤمن کا دل اس پر مطمئن نہیں ہوتا، اور یہ اسکے دل میں کھٹکتا رہتا ہے۔ جوکہ اس عمل کے گناہ ہونے کی ایک واضح دلیل ہے۔
ان تمام تر دلائل کی رو سے اورل سیکس کی حرمت ہی ثابت ہوتی ہے۔
______________________
[1] لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک فطرت پر پیدا کیا ہے۔ جب انسان اس فطرت سے ہٹتا ہے اور اس کے خلاف عمل کرتا ہے تو تباہی سے دوچار ہوتا ہے۔ مردوخاتون کی قربت کا بھی ایک فطری طریقہ ہے لیکن کچھ بدقماش اس میں بھی فطرت کے خلاف جاتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے خبر ہے کہ ماہرین نے خلافِ فطرت جنسی عمل میں منہ کے استعمال کو کینسر کی بہت بڑی وجہ قرار دے دیا ہے۔ہر سال دنیا میں 5لاکھ افراد اس عمل کی وجہ سے منہ کے کینسر میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ جب ماہرین نے تحقیق کی تو پتا چلا کہ اس کا باعث جنسی رطوبت میں پایا جانے والا مادہ ہیومن پیپیلوماوائرس((HPV)Human Papillomavirus) ہے، جومنہ کے ساتھ جنسی عمل کرنے سے براہ راست منہ میں چلا جاتا ہے اور منہ کے کینسر کے چانس 22فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔
ایچ پی وی مادے میں پایا جانے والا وائرس جلد اور نرم جھلی کو تباہ کرتا ہے جو منہ اور گلے کے علاوہ دیگر اعضاءمیں موجود ہوتی ہے۔ ایچ پی وی براہ راست کینسر کو بڑھاوا بھی دیتا ہے اور پہلے سے کینسر زدہ خلیوں کے مرض میں بھی شدت لاتا ہے۔ برطانوی اخبار”ڈیلی میل“ کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ سالانہ ڈیڑھ لاکھ افراد اس مرض کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ باقی ساڑھے تین لاکھ کے قریب معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ تحقیقاتی رپورٹ جے اے ایم اے اونکالوجی (JAMA Oncology) نامی میگزین میں شائع ہوئی۔
https://dailypakistan.com.pk/28-Jan-2016/324098
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-
الخميس PM 05:58
2022-01-20 - 7330