اعداد وشمار
مادہ
ہم جنس پرستی
سوال
علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارہ میں کیا فرماتے ہیں کہ ہم جنس پرستی کی اسلام مین کیا حیثیث ہے؟ کیا کوئی مرد کسی دوسرے مرد سے اپنی جنسی ضرورت پوری کر سکتا ہے؟ کیا دو مرد آپس میں نکاح کر سکتے ہیں؟ کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
اللہ سبحانہ وتعالى نے اہل ایمان کے لیے اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے صرف بیوی اور لونڈی کو جائز ذریعہ قرار دے کرباقی تمام تر ذرائع کو حرام قرار دیا ہے۔ سورۃ المؤمنون میں ارشاد باری تعالى ہے:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ 1 الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ 2 وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ 3 وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ 4 وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ 5 إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ 6 فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ 7
یقینا مؤمن کامیاب ہوگئے ۔وہی جو اپنی نمازوں میں عاجزی کرنے والے ہیں۔ اوروہی جو لغو (فضولیات) سے اعراض کرنے والے ہیں۔ اور وہی جو زکاۃ ادا کرنے والے ہیں۔اور وہی جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، مگر اپنی بیویوں، یا ان (عورتوں) پر جن کے مالک انکے دائیں ہاتھ بنے ہیں، تو بلا شبہ وہ ملامت کیے ہوئے نہیں ہیں۔ پھر جو اسکے سوا (جنسی خواہش پوری کرنے کا ذریعہ) تلاش کرے تو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں۔
ہم جنس پرستی کا آغاز سدوم نامی بستی میں رہنے والوں میں شروع ہوا جنہیں اس کام سے روکنے کے لیے اللہ سبحانہ وتعالى نے لوط علیہ السلام کو مبعوث فرمایا :
وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِينَ 80 إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ 81 (سورة الأعراف)
اور لوط (علیہ الصلاۃ والسلام) کو (بھیجا) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: ’’کیا تم اس بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہوجو تم سے پہلے، جہانوں میں سے کسی نے نہیں کی۔ بیشک تم تو عورتون کو چھوڑ کرمردوں کے پاس شہوت سے آتے ہو، بلکہ تم حد سے گزرنے والے لوگ ہو۔
لیکن جب وہ اس کام سے باز نہ آئے تو اللہ تعالى نے ان پر عذاب نازل فرما دیا:
فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ مَنْضُودٍ 82 مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ 83 (سورة هود)
پھر جب ہمارا حکم آیا تو ہم نے اس کے اوپر والے حصے کو اسکا نیچا کر دیا اور ان پر تہ بہ تہ کھنگر کے پتھر برسائے۔ جو تیرے رب کے ہاں سے نشان لگائے ہوئے تھے اور وہ ان ظالموں سے ہرگز کچھ دور نہیں۔
امام الانبیاء جناب محمد مصطفى صلى اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا فعل بد کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا:
لَعَنَ اللهُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ
اللہ اس پر لعنت کرے جس نے بھی قوم لوط والا عمل کیا۔
(مسند أحمد:2816، اسنادہ جید، رجالہ رجال الصحیح)
لعنت کا معنى اللہ کی رحمت سے محرومی ہوتا ہے۔ اور اسکے ساتھ ساتھ اسے دونوں ہم جنس پرستوں کو قتل کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ وَجَدْتُمُوهُ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ، فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ، وَالْمَفْعُولَ بِهِ»
تم جسے بھی قوم لوط والا عمل کرتے پاؤ ، تو فاعل و مفعول دونوں کو قتل کر دو۔
(سنن أبی داود:4462، قال الألبانی : حسن صحیح)
اور قتل کے طریقہ کار کے بارہ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے قوم لوط والا عمل کرنے والے کے بارہ میں حکم دیا:
«ارْجُمُوا الْأَعْلَى وَالْأَسْفَلَ، ارْجُمُوهُمَا جَمِيعًا»
اوپر والے اور نیچے والے کو رجم (سنگسار) کر دو، ان دونوں کو اکٹھا رجم کرو
(سنن ابن ماجہ: 2562، قال الألبانی حسن لغیرہ)
درج بالا ادلہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہم جنس پرستی جسے عملِ قومِ لوط بھی کہا جاتا ہے، شریعت اسلامیہ میں حرام، باعث عذاب، اور لعنت کا موجب ہے۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-
الخميس PM 07:15
2022-01-20 - 913





