اعداد وشمار
مادہ
عورت پہ خاوند کے گھر کا کام کاج فرض ہے؟
سوال
کیا بیوی پہ لازم ہے کہ وہ خاوند کی اور اسکے والدین کی خدمت کرے اور گھریلو کام کاج کرے؟ کھانا تیار کرنا صفائی وغیرہ یہ سب عورت کی ذمہ داری ہے یا مرد پہ واجب ہے کہ وہ بیوی کے لیے کھانا وغیرہ سب ضروریات زندگی مہیا کرے؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
اللہ سبحانہ وتعالى نے بیوی پر خاوند کی اطاعت فرض کی ہے۔ جب تک خاوند اسے اللہ کی معصیت کا حکم نہ دے بیوی پہ واجب ہے کہ وہ خاوند کی ہر بات مانے اور اسکے ہر حکم کو فورا بجا لائے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ النِّسَاءِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «الَّتِي تَسُرُّهُ إِذَا نَظَرَ، وَتُطِيعُهُ إِذَا أَمَرَ، وَلَا تُخَالِفُهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهَا بِمَا يَكْرَهُ»
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا عورتوں میں سے کونسی عورت بہتر ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: وہ عورت کہ جب اسے اسکا خاوند دیکھے تو وہ اسے خوش کردے، اور جب وہ اسے حکم دے تو یہ اسکی اطاعت کرے، اور اپنی جان اور مال کے بارہ میں کوئی ایسا اقدام نہ کرے جو اسکے خاوند کو ناگوار ہو۔
سنن النسائي: 3231
خاوند کی نافرمانی اور حکم عدولی کی بناء پر عورتوں کو جہنم میں عذاب دیا جائے گا۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :
وَرَأَيْتُ النَّارَ، فَلَمْ أَرَ كَاليَوْمِ مَنْظَرًا قَطُّ، وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ» قَالُوا: لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «بِكُفْرِهِنَّ» قِيلَ: يَكْفُرْنَ بِاللَّهِ؟ قَالَ: " يَكْفُرْنَ العَشِيرَ، وَيَكْفُرْنَ الإِحْسَانَ، لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ "
میں نے جہنم کو دیکھا ، تو میں نے آج جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا، اور میں نے اس (جہنم) میں عورتوں کو مردوں کی نسبت زیادہ پایا۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کیوں؟ تو آپ ﷺ نے بتایا کہ انکے کفر کی وجہ سے۔ کہا گیا کہ کیا وہ اللہ کا کفر کرتی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ خاوند کی نافرمانی کرتی ہیں اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔ اگر آپ ان میں سے کسی کے ساتھ زمانہ بھر احسان کریں ، پھر وہ آپ میں کوئی ناگوار بات دیکھ لیں تو کہتی ہے میں نے تجھ میں کبھی خیر نہیں دیکھی۔
صحيح البخاري: 5197
خاوندوں کے اسی حق کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَاءَ أَنْ يَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِهِنَّ لِمَا جَعَلَ اللَّهُ لَهُمْ عَلَيْهِنَّ مِنَ الْحَقِّ
اگر میں کسی کو کسی کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دینے والا ہوتا، تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں، کیونکہ اللہ تعالى نے بیویوں پر خاوندوں حق رکھا ہے۔
سنن أبي داود: 2140
لہذا خاوند اپنی بیوی کو گھریلو کام کاج یا اسکے علاوہ کوئی بھی ایسا کام کرنے کا حکم دے جس میں اللہ تعالى کی معصیت اور نافرمانی نہ ہوتی ہو، تو بیوی پر فرض ہے کہ خاوند کی اطاعت کرے اور اسکی بات فورا مانے۔ نہ تو اسے انکار کرنے کی شریعت نے اجازت دی ہے اور نہ ہی خاوند کے حکم کو ماننے میں تاخیر کرنے کی اجازت دی ہے۔ یعنی فورا خاوند کی بات پر عمل کرنا بیوی پر فرض ہے۔
کھانا بنانا یا دیگر گھریلو کام کاج کرنا اللہ کی معصیت نہیں بلکہ اللہ کی اطاعت ہے۔ سو خاوند اگر بیوی کو کھانا تیار کرنے ، برتن اور کپڑے دھونے، گھر کی صفائی کرنے یا اپنے والدین کی خدمت کرنے کا حکم دیتا ہے تو بیوی پر فرض ہے کہ اپنے خاوند کی بات مانے ۔ اور اگر وہ اسکی ان کاموں میں اطاعت نہیں کرتی تو وہ اللہ کے ہاں بھی مجرم اور گنہگار ٹھہرے گی۔
مرد کے گھر کی دیکھ بھال اور نگہبانی کرنا عورت کا اخلاقی اور شرعی فریضہ ہے۔ نبی مکرم ﷺ نے بھی عورت کو خاوند کے گھر کی نگہبان قرار دیا ہے:
«كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالأَمِيرُ رَاعٍ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ، فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ»
تم میں سے ہرکوئی نگہبان ہے اور ہر کسی سے اسکی رعیت (ماتحتوں) کے بارہ میں پوچھا جائے گا۔ امیر (حاکم) بھی نگہبان ہے، اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے، اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اسکے بچوں کی نگہبان ہے، تو تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اور ہر کوئی اپنی رعیت کے بارہ میں سوال کیا جائے گا۔
صحيح البخاري: 5200
گھر کی صفائی ستھرائی، گھر والوں کے لیے بستر اور کھانے کی تیاری وغیرہ یہ سب گھر کی نگہبانی میں شامل ہے۔ اور عورت سے ان سب امور کے بارہ میں روز محشر سوال کیا جائے گا کہ اس نے اپنی یہ ذمہ داری کس قدر نبھائی ہے۔
کھانا بنانے کی ذمہ داری دور نبوی میں بھی بیویوں کے سر ہی تھی۔ رسول اللہ ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے پاس جاتے اور ان سے کھانا طلب کرتے، وہ آپ ﷺ کے لیے کھانا تیار کرکے رکھتی تھیں۔ اور اگر کبھی گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہوتا تو آپ ﷺ روزہ رکھ لیتے۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَيَّ قَالَ: «هَلْ عِنْدَكُمْ طَعَامٌ؟»، فَإِذَا قُلْنَا: لَا، قَالَ: «إِنِّي صَائِمٌ»
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لاتے تو پوچھتے کیا تمہارے پاس کھانے کوکچھ ہے؟ اگر ہم کہہ دیتے کہ نہیں ہے تو آپ ﷺ فرماتے میں روزے سے ہوں۔
سنن ابي داود: 2455
اسی طرح جب ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگی تو رسول اللہ ﷺ نے بریرہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
«يَا بَرِيرَةُ هَلْ رَأَيْتِ فِيهَا شَيْئًا يَرِيبُكِ؟»، فَقَالَتْ بَرِيرَةُ: لاَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالحَقِّ، إِنْ رَأَيْتُ مِنْهَا أَمْرًا أَغْمِصُهُ عَلَيْهَا قَطُّ، أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ، تَنَامُ عَنِ العَجِينِ، فَتَأْتِي الدَّاجِنُ فَتَأْكُلُهُ
اے بریرہ کیا تو نے اس (عائشہ رضی اللہ عنہا) میں کوئی ایسی بات دیکھی جو معیوب ہو؟ تو بریرہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : نہیں ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہے میں نے ان میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی کہ میں جسکی بنا ء پر ان پہ عیب لگاؤں سوائے اس کے کہ وہ نو عمر لڑکی ہے ، آٹا گوندھ کر سو جاتی ہے اور بکری آکر وہ (گوندھا ہوا آٹا) کھا جاتی ہے۔
صحيح البخاري : 2661
یعنی بریرہ رضی اللہ عنہا نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ کوتاہی ذکر فرمائی کہ وہ اپنی نو عمری کی وجہ سے گھریلو کام میں کچھ کوتاہی کر جا تی ہیں۔ اور یہ بات انکے لیے معیوب نہ تھی کیونکہ وہ نو عمر تھیں۔ اس روایت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کھانا تیار کرنے کے لیے آٹا گوندھتی تھیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ اشْتَكَتْ مَا تَلْقَى مِنَ الرَّحَى مِمَّا تَطْحَنُ، فَبَلَغَهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِسَبْيٍ، فَأَتَتْهُ تَسْأَلُهُ خَادِمًا، فَلَمْ تُوَافِقْهُ، فَذَكَرَتْ لِعَائِشَةَ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ عَائِشَةُ لَهُ، فَأَتَانَا، وَقَدْ دَخَلْنَا مَضَاجِعَنَا، فَذَهَبْنَا لِنَقُومَ، فَقَالَ: «عَلَى مَكَانِكُمَا». حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمَيْهِ عَلَى صَدْرِي، فَقَالَ: «أَلاَ أَدُلُّكُمَا عَلَى خَيْرٍ مِمَّا سَأَلْتُمَاهُ، إِذَا أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَا فَكَبِّرَا اللَّهَ أَرْبَعًا وَثَلاَثِينَ، وَاحْمَدَا ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ، وَسَبِّحَا ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ، فَإِنَّ ذَلِكَ خَيْرٌ لَكُمَا مِمَّا سَأَلْتُمَاهُ»
فاطمہ رضی اللہ عنہا کو چکی پیسنے کی بہت تکلیف ہوتی۔ پھر انہیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں۔ اس لیے وہ بھی ان میں سے ایک لونڈی یا غلام کی درخواست لے کر حاضر ہوئیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود نہیں تھے۔ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کے متعلق کہہ کر (واپس) چلی آئیں۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کی درخواست پیش کر دی۔ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسے سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں (رات ہی کو) تشریف لائے۔ جب ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے (جب ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا (تو ہم لوگ کھڑے ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح ہو ویسے ہی لیٹے رہو۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بیچ میں بیٹھ گئے اور اتنے قریب ہو گئے کہ) میں نے آپ کے دونوں قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے پر پائی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کچھ تم لوگوں نے (لونڈی یا غلام) مانگے ہیں ‘ میں تمہیں اس سے بہتر بات کیوں نہ بتاؤں ‘ جب تم دونوں اپنے بستر پر لیٹ جاؤ (تو سونے سے پہلے) اللہ اکبر 34 مرتبہ اور الحمداللہ 33 مرتبہ اور سبحان اللہ 33 مرتبہ پڑھ لیا کرو ‘ یہ عمل بہتر ہے اس سے جو تم دونوں نے مانگا ہے۔
صحیح البخاری: 3113
الغرض گھریلو کام کاج اور کھانا بنا وغیرہ عورت کی شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، جس میں کوتاہی کرنا عورت کا عیب شمار ہوتا ہے۔ اور اسے زمانہء نبوت میں بھی عیب ہی گردانا جاتا تھا۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-
الخميس PM 10:06
2022-01-20 - 2668





