اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

خفیہ نکاح

سوال

آج سے 10سال پہلے جب میں کالج جاتا تھا تب مجھے ایک لڑکی اچھی لگتی تھی لیکن ہماری شادی نہ ہو سکی ۔لیکن اب میری بھی شادی ہو چکی ہے اور اس لڑکی کی بھی شادی ہوئی تھی لیکن اس لڑکی کا شوہر  شہید ہو گیا ہے۔ اب دوبارہ میرا اس لڑکی سے رابطہ ہوا ہے۔ اب میں اس سے دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں پر لڑکی کی یہ خواہش ہے کہ ہم نکاح کر لیں گے لیکن کسی کو بتائیں گے نہیں یہاں تک کہ میں بھی اپنے گھر والوں نہیں بتاوں گا اور وہ لڑکی بھی نہیں بتایے گی بس کبھی کبھی اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہم ایک دوسرے کو مل لیا کریں گے۔کیا کو ئی ایسی نکاح کی قسم ہے۔ کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں۔  کیا شریعت اس کی اجازت دیتی ہے۔

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ دین اسلام میں اس طرح سے لڑکے اور لڑکی کا ایک دوسرے کو پسند کرنا ہی حرام ہے۔ یہ مرض عشق ہے جسکا آغاز ہی حدود اللہ کو توڑنے سے ہوتا ہے۔

آپکا اس  لڑکی کو چاہنا بھی ناجائز تھا اور اب اسکے ساتھ اس طرح سے رابطہ رکھنا بھی شریعت میں حرام اور ناجائز ہے۔ کیونکہ وہ عورت آپ کے لیے غیر محرم ہے، اور غیر محرم سے گپ شپ لگانا، اور پیار کی پینگیں ڈالنا شریعت میں حرام ہے۔

رہی دوسری شادی کی بات تو اللہ سبحانہ وتعالى نے مرد کے لیے دوسری، تیسری ، اور چوتھی شادی بھی حلال کی ہے۔ مرد بیک وقت چار عورتوں سے نکاح کر سکتا ہے۔ اللہ تعالى کا فرمان ہے:

فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاء مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ

تو عورتوں میں سے جو تمہارے لیے مناسب ہوں دو ، دو اور تین ، تین، اور چار ، چار عورتوں سے نکاح کرو۔ لیکن اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ تم (انکے مابین)  عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی (پر اکتفاء کرو) یا اپنی لونڈیوں پہ اکتفاء کرلو۔

[النساء : 3]

لیکن نکاح کے لیے اللہ تعالى نے ایک تو یہ شرط عائد فرمائی ہے کہ عورت کے اولیاء (اسکے بیٹے، والد، بھائی، چچا ) سے اجازت لی جائے۔ عورت  کو  اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

«لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ»

ولی (کی اجازت) کے بغیر نکاح نہیں ہے۔

سنن ابی داود: 2085

نیز فرمایا:

«أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ»، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ «فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَالْمَهْرُ لَهَا بِمَا أَصَابَ مِنْهَا، فَإِنْ تَشَاجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ».

"جو عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اسکا نکاح باطل ہے۔" یہ بات آپ ﷺ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ پھر فرمایا "اگر اس مرد نے (ولی کی اجازت کے بغیر کیے گئے نکاح کے بعد) اس  عورت سے جماع کر لیا تو اسکی وجہ سے اسے حق مہر ادا کرنا ہوگا۔ اور اگر لڑکی کے اولیاء آپس میں جھگڑا کریں تو جسکا کوئی ولی نہ ہو سلطان (حاکم) اسکا ولی ہے۔

سنن ابی داود: 2083

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  رسول الله ﷺ نے فرمایا :

«لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا، فَإِنَّ الزَّانِيَةَ هِيَ الَّتِي تُزَوِّجُ نَفْسَهَا»

کوئی عورت کسی دوسری عورت کا نکاح نہ کروائے، اور نہ ہی عورت اپنا نکاح خود کروائے۔ (سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں)  وہ تو زانیہ ہوتی ہے جو اپنا نکاح خود کرتی ہے۔

سنن ابن ماجہ : 1882

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ وَشَاهِدَيْ عَدْلٍ

ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہے۔

صحیح ابن  حبان: 4075

لہذا نکاح کے لیے عورت کے ولی کی اجازت  ضروری ہے ، وگرنہ نکاح باطل ہوگا۔

ہاں مرد کو اپنا نکاح خود کرنے کا اختیار ہے، وہ ایسا کرسکتا ہے۔  اس کے لیے کسی کی بھی اجازت ضروری نہیں ہے۔

لہذا اگر آپ اپنے گھر والوں کو اس نکاح کے بارہ میں نہ بتائیں ، تو اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔ لیکن اس عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے ولی امر سے نکاح کی اجازت لے۔ وگرنہ نکاح درست نہیں ہوگا۔ اور اسی طرح نکاح کے موقع  پر کم از کم دو عادل گواہ بھی موجود ہوں۔

اور آخری بات عورت کے اپنے کچھ حقوق سے دستبردار ہونے کی، تو شریعت اسلامیہ میں اسکی اجازت ہے کہ اگر عورت اپنی رضامندی سے اپنے کچھ حقوق سے دستبردار ہو جائے تو اس میں کوئی مضایقہ نہیں ہے۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

أَنَّ سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ وَهَبَتْ يَوْمَهَا وَلَيْلَتَهَا لِعَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَبْتَغِي بِذَلِكَ رِضَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ام المؤمنین سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری کا دن اور رات نبی مکرم ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی کی خاطر ہبہ کر دیا تھا۔

صحیح البخاری: 2593

یعنی اصول تو یہ ہے کہ خاوند اپنی ہر بیوی کے لیے برابر دن اور رات مقرر کرے۔ لیکن ام المؤمنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا  اپنے اس حق سے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حق میں دستبردار ہوگئیں تھیں۔

لہذا  اگر وہ عورت اس بات پہ راضی ہوتی ہے کہ آپ اسکے لیے پہلی بیوی کے برابر شب وروز مقرر نہ کریں ، اور وہ اپنے اس حق سے دستبردار ہوتی ہے کہ کبھی کبھار اسے باری مل جائے تو وہ راضی ہے۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

 

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الخميس PM 10:23
    2022-01-20
  • 858

تعلیقات

    = 7 + 4

    /500
    Powered by: GateGold