اعداد وشمار
مادہ
حاملہ سے مباشرت
سوال
کیا حالت حمل میں مباشرت کرنا جائز ہے؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
شریعت نے صرف حالت حیض میں بیوی سے مجامعت کرنے سے منع فرمایا۔ اسکے سوا باقی حالات میں اگر عورت کی صحت اجازت دیتی ہو توجماع کرنے سے کوئی ممانعت نہیں ہے۔
حالت حمل میں کیا جانے والا جماع جنین(پیٹ میں موجود بچہ) کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان حاملہ عورتوں کے بارہ میں جو لونڈیاں بن کر آتی تھیں اہل اسلام کو حکم دیا کہ ان سے جماع نہ کیا جائے جب تک وہ بچہ کو جنم نہ دے لیں۔ کیونکہ جماع کرنے سے اس جنین کی نشو ونما میں دوران حمل جماع کرنے والے کا بھی حصہ شامل ہوجاتا ہے ۔ پھر وہ بچہ نہ تو اس مسلمان کا وارث بن سکتا ہے کیونکہ اصل نطفہ اس مسلمان کا نہیں بلکہ کسی کافر کا ہے جسکے عقد میں وہ لونڈی پہلے رہی ہے۔ اور نہ ہی وہ بچہ اس غلام بن سکتا ہے کیونکہ اس مسلمان کا نطفہ بھی اسکی نشو ونما میں شامل ہو چکا ہے۔
سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی لونڈی کو دیکھاجسکے بچہ کو جنم دینے کا وقت قریب تھا تو فرمایا :
«لَعَلَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُلِمَّ بِهَا»، فَقَالُوا: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَلْعَنَهُ لَعْنًا يَدْخُلُ مَعَهُ قَبْرَهُ، كَيْفَ يُوَرِّثُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ؟ كَيْفَ يَسْتَخْدِمُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ؟»
شاید کہ اسکا مالک اس سے جماع کرنا چاہتا ہے؟ تو انہوں نے کہا جی ہاں‘ تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں چاہتا ہوں کہ اس پر ایسی لعنت کروں جو اسکے ساتھ اسکی قبر تک پہنچے‘ وہ اسے کیسے وارث بنائے گا جبکہ وہ اسکے لیے حلال نہیں ہے ‘ اور اسے کیسے غلام بنائے گا جبکہ وہ اسکے لیے حلال نہیں ہے ۔
صحیح مسلم : 1441
اسی طرح سیدنا رُوَیْفِع بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے حنین کے دن ارشاد فرمایا:
«لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ» - يَعْنِي: إِتْيَانَ الْحَبَالَى - «وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَقَعَ عَلَى امْرَأَةٍ مِنَ السَّبْيِ حَتَّى يَسْتَبْرِئَهَا »
جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسکے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنا پانی کسی دوسرے کی کھیتی کو پلائے یعنی دوسرے مرد سے حاملہ عورت کے ساتھ جماع کرے۔ اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسکے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ جماع کرے حتى کہ استبراء کر لے (یعنی یا تو اسے حیض آ جائے یا اگر وہ حاملہ ہے تو بچہ کو جنم دے لے)
سنن أبی داود : 2158
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران حمل جماع کرنے سے جنین کی جسمانی صحت میں بہتری آتی ہے‘ اور اسکی خلقت کے نقائص ختم ہوتے ہیں ۔ بالکل اسی طرح جس طرح کھیتی کو پانی لگانے فصل سرسبز وشاداب ہوتی ہے۔لہذا دوران حمل اپنی بیوی سے جماع کرنا معیوب نہیں بلکہ مستحسن امر ہے اور یہ جنین کے لیے مفید بھی ہے۔
اسی سے علم طب کا یہ مسئلہ بھی نکھر کر سامنے آتا ہے کہ حمل کی حالت میں مرد کے پانی کی رحم تک رسائی رہتی ہے۔ اور وہ جنین کس نشو ونما میں معاون ہوتا ہے۔
اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دوسرے سے حاملہ لونڈیوں سے جماع کرنا حرام ہے جب تک انکا حمل وضع نہ ہو جائے۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-
الخميس PM 06:23
2022-01-20 - 1246





