اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

موجودہ مسلمان حکومتوں کو خلافت قرار دیا جاسکتا ہے؟

سوال

جیسا کہ آپ نے اپنے ایک فتوی میں فرمایا ہے کہ موجودہ حکمران اولی الأمر ہیں،تو   کیا موجودہ مسلمان حکومتوں کو خلافت قرار دیا جاسکتا ہے؟

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

 ہر اولی الامر خلیفہ نہیں  ہوتا!

موجودہ مسلمان حکام بھی اولی الامر توہیں لیکن انکی حکومتوں کو خلافت على منہاج النبوۃ قرار دینا درست نہیں ہے۔  خلافت على منہاج النبوۃ تو نبی مکرم ﷺ کے دور مسعود کے چند سالوں بعد ہی ختم ہوگئی تھی، اسکے بعد ملوکیت کا دور شروع ہوا جسے رسول اللہ ﷑ نے "ملوکیت ورحمت" کے نام سے تعبیر فرمایا تھا۔ جب ملوکیت رحمت والی ہو تو وہ خلافت على منہاج النبوۃ سے بہت حد تک مماثلت رکھتی ہے، اسی لیے اہل علم نے اس رحمت والی ملوکیت کے لیے بھی "خلافت" کا لفظ استعمال کیا ہے۔ سو آج بھی اگر کہیں مسلمان حکام کی حکومت رحمت والی ہے تو اسے اس معنى میں "خلافت" کہا جا سکتا ہے، البتہ خلافت على منہاج النبوۃ نہیں۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ذی شان ہے:

" تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ "

جب تک اللہ  ﷯ چاہیں گے تم میں نبوت رہے گی، پھر جب چاہیں گے دور نبوت کو ختم فرما دیں گے۔ اسکے بعد نبوی منہج پر خلافت ہوگی جب تک اللہ ﷯ چاہیں گے۔ پھر جب چاہیں گے اسے بھی ختم فرما دیں گے۔ پھر کاٹ کھانے والی ملوکیت آئے گی، تو جب تک اللہ چاہیں گے وہ رہے گی پھر جب چاہیں گے اسے بھی ختم فرما دیں گے۔ اور اسکے بعد زبردستی کی حکومت ہوگی، جب تک اللہ نے چاہا، پھر جب چاہا اسے بھی ختم فرما دیں گے ۔ اسکے بعد نبوت کے منہج پر خلافت قائم ہوگی۔

مسند أحمد: 18406

ایک روایت میں اس سے قدرے زیادہ تفصیل ذکر ہوئی ہے ۔ رسول اللہ ﷑ فرماتے ہیں:

أَوَّلُ هَذَا الْأَمْرِ نُبُوَّةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ خِلَافَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ إِمَارَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَتَكادَمُونَ عَلَيْهِ تَكادُمَ الْحُمُرِ فَعَلَيْكُمْ بِالْجِهَادِ، وَإِنَّ أَفْضَلَ جهادِكُمُ الرِّبَاطُ، وَإِنَّ أَفْضَلَ رباطِكُمْ عَسْقَلَانُ

تمہارے اس معاملہ کا آغاز نبوت ورحمت ہے، پھر خلافت ورحمت ہوگی، پھر ملوکیت ورحمت کا دور آئے گا، پھر امارت ورحمت ہوگی، اسکے بعد تم پر گدھوں کی طرح چڑھ دوڑیں گے، تو اس وقت تم جہاد کو لازم پکڑنا، اور تمہارا بہترین جہاد رباط ہے اور تمہارا بہترین رباط عسقلان ہے۔

المعجم الکبیر للطبرانی: 11138

ایک روایت میں خلافت على منہاج النبوۃ کی مدت بھی رسول ا للہ ﷺ نے ذکر فرمائی ہے:

الخِلَافَةُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ مُلْكٌ بَعْدَ ذَلِكَ

میری امت میں خلافت تیس سال تک ہوگی، اسکے بعد ملوکیت کا دور ہوگا۔

سنن أبی داود : 2226

نبوی منہج کے مطابق خلافت کے تیس سال اگر شمار کریں تو سیدنا علی ﷜ کے زمانہ کے اختتام کے ساتھ ہی یہ تیس سال مکمل ہو جاتے ہیں۔ اسکے بعد کا دور ملوکیت کا دور ہے جسے احادیث میں ملوکیت و رحمت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن اس پر رحمت ملوکیت کو خلافت سے بہت زیادہ مشابہت رکھنے کی بناء پر تغلیباً خلافت ہی کہا جاتا رہا ہے۔ جیسا کہ ہم اسلاف کی کتب میں پڑھتے ہیں "خلافت بنی امیہ، خلافت بنی عباس، ... الخ" ان ادوار پہ خلافت کے لفظ کا اطلاق "محض تغلیباً" کیا جاتا ہے اور انہیں خلافت على منہاج النبوہ کوئی بھی نہیں کہتا۔

اسی طرح موجودہ حکام  کو خلیفہ یا موجودہ حکومتوں کو خلافت اگر کوئی کہے تو وہ تغلیبا کہہ سکتا ہے، وگرنہ حقیقت میں خلافت یعنی خلافت على منہاج النبوۃ  فی الحال کہیں بھی نہیں ہے۔ اور اللہ تعالى جلد یا بدیر مسلمانوں کو پھر سے خلافت عطاء کرے گا جیسا کہ احادیث میں پیش گوئی موجود ہے۔ اور اس خلافت کا قیام مسلمان حکومتوں کی بغاوت، ان سے ٹکراؤ، یا ان سے لڑائی جھگڑا اور  قتال کرکے  ممکن نہیں، بلکہ یہ خلافت اللہ تعالى کا انعام ہے جسے خاص صفات کے حامل لوگوں کو اللہ تعالى عطاء کرتا ہے۔

البتہ موجودہ دور میں جس طرح تکفیر و خروج کا فتنہ اور اسی طرح دیگر بہت سے فتنے سر اٹھائے کھڑے ہیں، اور عامۃ الناس لفظ خلافت سے "خلافت على منہاج النبوۃ" ہی سمجھتے ہیں، سو ایسے دور میں اور ایسے معاشروں میں خلافت کے شرعی حقیقی معنى کو چھوڑکر اسکے مجازی معنى میں استعمال کرنا یعنی خلافت کو محض مسلم حکومت  یا مسلم ملوکیت کے معنى میں استعمال کرنا بھی مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے فتنہ کا اک نیا باب کھلنے کا اندیشہ ہے۔ اور جہاں یہ خطرہ نہ ہو جیسا کہ سلف کے ادوار میں اس قسم کا خطرہ نہ تھا اور انہوں نے ملوکیت و رحمت کو بھی خلافت کے نام سے تعبیر کیا، تو وہاں ایسا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ وہاں سبھی یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت لفظ "خلافت" کس معنى میں بولا جا رہا ہے۔

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الثلاثاء AM 11:13
    2022-02-08
  • 1105

تعلیقات

    = 1 + 8

    /500
    Powered by: GateGold