اعداد وشمار
مادہ
اسلام میں مباشرت کے اصول کیا ہیں؟
سوال
اسلام میں مباشرت کے اصول کیا ہیں؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
اسلام نے میاں بیوی کو ایک دوسرے سے لطف اٹھانے کی کھلی اجازت دی ہے۔
نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ
تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں، سو اپنی کھیتی میں جیسے چاہو آؤ۔
البقرۃ: 223
صرف چند حدود وقیود ہیں جنکا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
1۔ حیض ونفاس کی حالت میں جماع کرنا حرام ہے:
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
اور وہ آپ سے حیض کے بارہ میں پوچھتے ہیں ۔ کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے۔ سو حیض میں عورتوں سے علیحدہ رہو اور انکے قریب نہ جاؤ حتى کہ وہ پاک ہو جائیں، پھر جب وہ پاکیزگی حاصل کر لیں (غسل کر لیں) تو جہاں سے اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے انکے پاس جاؤ۔ یقینا اللہ تعالى بہت زیادہ توبہ کرنے والوں اور خوب پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
سورۃ البقرۃ:222
البتہ حالت حیض میں عورت کی شرمگاہ میں دخول کیے بغیر کھیلنا (بوس و کنار کرنا) جائز ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
كَانَتْ إِحْدَانَا إِذَا كَانَتْ حَائِضًا، فَأَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُبَاشِرَهَا " أَمَرَهَا أَنْ تَتَّزِرَ فِي فَوْرِ حَيْضَتِهَا، ثُمَّ يُبَاشِرُهَا، قَالَتْ: وَأَيُّكُمْ يَمْلِكُ إِرْبَهُ، كَمَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْلِكُ إِرْبَهُ "
ہم (امہات المؤمنین) میں سے کوئی ایک حائضہ ہوتی اور رسول اللہ ﷺ اس سے مباشرت کرنا چاہتے تو اسے حیض کی شدت میں ازار باندھنے کا حکم دیتے ، پھر اس سے مباشرت فرماتے ۔ کہتی ہیں کہ تم میں سے کون ہے جو اپنے خواہش پہ قابو رکھ سکے جسطرح رسول اللہ ﷺ اپنی خواہش پہ قابو رکھتے تھے۔
صحیح البخاری: 302
یعنی اگر خود پہ قابو ہو، تو حیض کی حالت میں بھی بیوی سے فرج کے علاوہ مباشرت کی جاسکتی ہے۔ یاد رہے کہ مباشرت صرف جسم سے جسم ملانے یعنی بوس و کنار کرنے کو کہتے ہیں۔ البتہ کبھی جماع کرنے کو بھی کنایۃ مباشرت کہہ دیا جاتا ہے۔
2۔ دبر ( عورت کی پچھلی شرمگاہ) میں جماع کرنا حرام ہے:
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
«مَلْعُونٌ مَنْ أَتَى امْرَأَتَهُ فِي دُبُرِهَا»
جو اپنی بیوی کی دبر (پچھلی شرمگاہ ) میں جماع کرتا ہے وہ ملعون ہے۔
سنن ابی داود: 2162
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
«مَنْ أَتَى كَاهِنًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ أَوْ أَتَى امْرَأَتَهُ حَائِضًا أَوْ أَتَى امْرَأَةً امْرَأَتَهُ فِي دُبُرِهَا فَقَدْ بَرِئَ مِمَّا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ»
جو شخص کسی کاہن کے پاس گیا اور اسکی بات کی تصدیق کی، یا حیض کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کیا، یا اسکی دبر (پچھلی شرمگاہ) میں جماع کیا ، تو ایسا شخص اس شریعت سے بری ہے جو محمد ﷺ پر اتاری گئی ہے۔
سنن ابی داود: 3904
3۔ اورل سیکس ( آلات تناسل کو منہ لگانا) حرام ہے:
اولا: مرد وعورت کی شرمگاہ سے نکلنے والی رطوبتیں باتفاق امت حرام ہیں۔ اور زبان ایسا عضو ہے جس پہ کوئی بھی چیز لگے تو وہ فورا اسے جذب کر لیتی ہے جس سے انسان ذائقہ محسوس کرتا ہے۔ اورل سیکس کے نتیجہ میں جہاں ان رطوبتوں کے لعاب کے ساتھ شامل ہو کر حلق کے ذریعہ پیٹ تک پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے وہیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ زبان ان رطوبتوں کو جذب کر لے گی۔ جس کے نتیجہ میں انسان حرام کا مرتکب ہو گا۔
ثانیا: اللہ تعالى نے بیوی کو کھیتی قرار دیا ہے اور کھیتی میں آنے کا حکم دیا ہے، یعنی جہاں سے اولاد کا حصول ممکن ہو، اور وہ صرف مرد وزن کی شرمگاہوں کے ملاپ سے ہی ممکن ہے۔ عورت کی شرمگاہ سوا منہ یا کسی اور عضو میں جماع کرنے سے اولاد کا حصول ممکن نہیں ، نہ ہی ہوہ کھیتی ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إِنَّ ابْنَ عُمَرَ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ أَوْهَمَ إِنَّمَا كَانَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهُمْ أَهْلُ وَثَنٍ مَعَ هَذَا الْحَيِّ مِنْ يَهُودَ وَهُمْ أَهْلُ كِتَابٍ وَكَانُوا يَرَوْنَ لَهُمْ فَضْلًا عَلَيْهِمْ فِي الْعِلْمِ فَكَانُوا يَقْتَدُونَ بِكَثِيرٍ مِنْ فِعْلِهِمْ وَكَانَ مِنْ أَمْرِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَنْ لَا يَأْتُوا النِّسَاءَ إِلَّا عَلَى حَرْفٍ وَذَلِكَ أَسْتَرُ مَا تَكُونُ الْمَرْأَةُ فَكَانَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ الْأَنْصَارِ قَدْ أَخَذُوا بِذَلِكَ مِنْ فِعْلِهِمْ وَكَانَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ يَشْرَحُونَ النِّسَاءَ شَرْحًا مُنْكَرًا وَيَتَلَذَّذُونَ مِنْهُنَّ مُقْبِلَاتٍ وَمُدْبِرَاتٍ وَمُسْتَلْقِيَاتٍ فَلَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ الْمَدِينَةَ تَزَوَّجَ رَجُلٌ مِنْهُمْ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ فَذَهَبَ يَصْنَعُ بِهَا ذَلِكَ فَأَنْكَرَتْهُ عَلَيْهِ وَقَالَتْ إِنَّمَا كُنَّا نُؤْتَى عَلَى حَرْفٍ فَاصْنَعْ ذَلِكَ وَإِلَّا فَاجْتَنِبْنِي حَتَّى شَرِيَ أَمْرُهُمَا فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ أَيْ مُقْبِلَاتٍ وَمُدْبِرَاتٍ وَمُسْتَلْقِيَاتٍ يَعْنِي بِذَلِكَ مَوْضِعَ الْوَلَدِ
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات سمجھی ہے کہ انصاری لوگ بت پرست تھے اور یہودی اہل کتاب تھے اور انصاری لوگ یہودیوں کو علم میں اپنے سے افضل سمجھتے تھے لہذا بہت سے کاموں میں انکی پیروی کرتے تھے ۔ اور اہل کتاب کے ہاں یہ بات رائج تھی کہ وہ عورتوں کے ساتھ صرف ایک ہی طریقہ سے جماع کرتے تھے اور اس سے عورت زیادہ چھپی رہتی تھی ۔ اور انصاریوں نے بھی ان ہی سے یہ بات اخذ کی تھی اور یہ قریشی لوگ عورتوں سے کھل کر جماع کرتے اور آگے سے پیچھے سے اور چت لٹا کر جماع کرتے تو جب مہاجرین مدینہ میں آئے تو ان میں سے ایک آدمی نے انصاری عورت سے شادی کر لی تو وہ اپنے طریقے سے اس کے ساتھ جماع کرنا چاہتا تھا لیکن اسکی بیوی اس بات کا انکار کرتی تھی اور کہتی کہ ہم صرف ایک ہی انداز سے جماع کے قائل ہیں لہذا وہی طریقہ اپناؤ یا مجھ سے دور رہو ۔ حتى کہ انکا معاملہ طول پکڑ گیا اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم تک جا پہنچا تو اللہ تعالى نے یہ آیت نازل فرمائی " نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ " تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں لہذا تم جس طریقے سے چاہو ان سے جماع کرو ۔ یعنی خواہ آگے سے خواہ پیچھے سے خواہ لٹا کر یعنی اولاد والی جگہ سے ۔
سنن ابي داود: 2164
اس حدیث میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جماع کرنے کے تمام تر اسلوب جائز و درست ہیں بشرطیکہ جماع وہاں سے کیا جائے جہاں سے اولاد کا حصول ممکن ہوتا ہے ۔ اور وہ صرف ایک ہی راستہ یعنی فرج کا راستہ ۔
ثالثا: دین اسلام نے قضائے حاجت کے وقت دائیاں ہاتھ شرمگاہ کو لگانا منع کیا ہے۔ رسول اللہ فرماتے ہیں:
«لَا يُمْسِكَنَّ أَحَدُكُمْ ذَكَرَهُ بِيَمِينِهِ وَهُوَ يَبُولُ، وَلَا يَتَمَسَّحْ مِنَ الْخَلَاءِ بِيَمِينِهِ، وَلَا يَتَنَفَّسْ فِي الْإِنَاءِ»
تم میں سے کوئی بھی پیشاب کرتے ہوئے اپنا آلہ تناسل دائیں ہاتھ سے نہ پکڑے، اور نہ ہی دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے، اور نہ ہی برتن میں سانس لے۔
صحیح مسلم: 267
چونکہ دائیاں ہاتھ کھانے پینے اور ذی شان کاموں کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے دائیں ہاتھ کو ایسے رذیل کاموں میں استعمال کرنے سے شریعت نے منع فرما دیا۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
«كَانَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيُمْنَى لِطُهُورِهِ وَطَعَامِهِ، وَكَانَتْ يَدُهُ الْيُسْرَى لِخَلَائِهِ، وَمَا كَانَ مِنْ أَذًى»
رسول اللہ ب کا دائیاں ہاتھ وضوء اور کھانا کھانے (جیسے امور) کے لیے ہوتا تھا اور آپ کا بائیاں ہاتھ قضائے حاجت اور گندگی والے امور کے لیے۔
سنن أبی داود: 33
غور فرمائیں کہ جب دائیاں ہاتھ جس کے ذریعہ انسان کھانا اپنے منہ کی طرف بڑھاتا ہے اسے ہی گندگی والے کاموں، شرمگاہ کو چھونے وغیرہ سے روک دیا گیا ہے تو منہ کو شرمگاہ کے پر لگانا یا عضوتناسل کو منہ میں ڈالنا یا عورت کی شرمگاہ کو زبان سے چاٹنا کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟ بلکہ یہ تو بطریق اولى حرام ٹھہرے گا۔
رابعا: دین اسلام طہارت وپاکیزگی کا درس دیتا ہے اور نجاست و گندگی سے دور رہنے کو لازم قرار دیتا ہے۔ اللہ تعالى کا فرمان ہے:
وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ
اور گندگی کو دور پھینک
المدّثر : 5
نیز فرمایا :
إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
یقینا اللہ تعالى بہت زیادہ توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
البقرة : 222
دین اسلام ذی شان کاموں کا حکم دیتا اور گھٹیا اور رذیل کاموں سے منع کرتا ہے۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«إِنَّ اللَّهَ كَرِيمٌ يُحِبُّ الْكَرَمَ، وَمَعَالِيَ الْأَخْلَاقِ، وَيُبْغِضُ سَفْسَافَهَا»
یقینا اللہ تعالى باعزت ہے اور عزت ‘ اور اخلاق عالیہ کو پسند فرماتا ہے اور گھٹیا عادتوں کو ناپسند فرماتا ہے۔
مستدرک حاکم: 152
جبکہ اورل سیکس نجاست و گندگی کو منہ میں ڈالنا ہی تو ہے۔ جس سے شریعت نے نفرت دلائی ہے اور دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ انتہائی گھٹیا کام ہے جسے اللہ تعالى ناپسند فرماتا ہے۔
اورل سیکس کی حرمت کے بارہ میں مزید دلائل جاننے کے لیے سوال نمبر 72 ملاحظہ فرمائیں۔
4۔ بلا وجہ برہنہ رہنا حرام ہے:
مباشرت و جماع کے وقت میاں بیوی لوگوں کی نظروں سے چھپ کر اپنے بدن کو تمام ترکپڑوں سے آزاد کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کام سے فارغ ہونے کے بعد ستر چھپانا ضروری ہے خواہ کسی اور کے دیکھنے کا اندیشہ نہ بھی ہو۔
رسول الله ﷺ سے سوال کیا گیا:
عَوْرَاتُنَا مَا نَأْتِي مِنْهَا وَمَا نَذَرُ؟ قَالَ «احْفَظْ عَوْرَتَكَ إِلَّا مِنْ زَوْجَتِكَ أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ» قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَا كَانَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ؟ قَالَ: «إِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ لَا يَرَيَنَّهَا أَحَدٌ فَلَا يَرَيَنَّهَا» قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَا كَانَ أَحَدُنَا خَالِيًا؟ قَالَ: «اللَّهُ أَحَقُّ أَنْ يُسْتَحْيَا مِنْهُ مِنَ النَّاسِ»
ہماری شرمگاہوں کے بارہ میں کیا حکم ہے؟ ہم کس قدر انکی حفاظت کریں اور کس قدر کھلا چھوڑیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا اپنی شرمگاہ کی اپنی بیوی اور لونڈی کے سوا باقی سب سے حفاظت کر۔ کہا اے اللہ کے رسول ﷺ جب مرد آپس میں ہی ہوں تو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تو یہ کر سکتا ہے کہ اسے (تیری شرمگاہ کو) کوئی نہ دیکھے تو (ایسا کر لےکہ) کوئی نہ دیکھنے پائے۔ عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ جب ہم میں سے کوئی تنہاء (اکیلا) ہوتو؟ آپ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کی نسبت اللہ تعالى زیادہ حقدار کہ اس سے حیاء کی جائے۔
سنن ابی داود: 4017
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-
الخميس PM 07:21
2022-01-20 - 3805





