تازہ ترین
حالت حیض میں طلاق => مسائل طلاق طلاق کی عدت => مسائل طلاق بدعی طلاق => مسائل طلاق حالت نفاس میں طلاق => مسائل طلاق بیک وقت تین طلاقیں => مسائل طلاق مباشرت کے بعد طلاق => مسائل طلاق اللہ تعالیٰ کی معیت => مسائل عقیدہ ایک مجلس کی تین طلاقیں => مسائل طلاق مفاہیم عشق => مقالات علم سے دوری کیوں؟ => مقالات

میلنگ لسٹ

بريديك

موجودہ زائرین

باقاعدہ وزٹرز : 61319
موجود زائرین : 17

اعداد وشمار

47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
272
فتاوى
56
مقالات
187
خطبات

تلاش کریں

البحث

مادہ

داڑھی کا خلال

داڑھی کا خلال

محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ

 

دوران وضوء داڑھی کا خلال کرنا فرض ہے اور اسکی فرضیت پہ قرآن وسنت کے دلائل موجود ہیں ، مگر کچھ لوگوں کی طرف سے یہ بات سننے کو مل رہی ہے کہ وضوء میں داڑھی کا خلال نہیں ہے۔ اور انکی بنیاد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے قول پر ہے کہ اس باب میں کچھ بھی ثابت نہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا وہم ہے۔ داڑھی کے خلال کے حوالہ سے روایات صحیح و ثابت ہیں۔

 ان روایات  سے پہلے یہ بات قابل غور ہے کہ داڑھی چہرے کا حصہ ہے جسے عربی زبان میں ’’وجہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسکا اطلاق مکمل چہرے پر ہوتا ہے جس میں منہ ناک رخسار آنکھیں ماتھا تھوڑی داڑھی سب شامل ہیں۔ 

ابن فارس  کہتے ہیں:

الْوَاوُ وَالْجِيمُ وَالْهَاءُ: أَصْلٌ وَاحِدٌ يَدُلُّ عَلَى مُقَابَلَةٍ لِشَيْءٍ. وَالْوَجْهُ مُسْتَقْبِلٌ لِكُلِّ شَيْءٍ.

واو اور جیم اور ہاء : ایک اصل ہے جو کسی شے کے مقابلہ (سامنا) کرنے پہ دلالت کرتا ہے۔ اور وجہ ہر شے کا مستقبل (سامنے والا حصہ) ہے۔

اس اعتبار سے اللہ تعالى کے حکم  فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ (تم اپنے چہروں کو دھو لو) میں کلی کرنا، ناک میں پانی چڑھانا، ناک جھاڑنا، چہرہ دھونا، داڑھی کا خلال کرنا سب شامل ہے۔ کیونکہ ان تمام سے ہی مواجہ ہوتا ہے۔

اور نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا وضوء میں کلی کرنا ، ناک میں پانی چڑھانا، ناک جھاڑنا، چہرہ دھونا ، اور داڑھی کا خلال کرنا اللہ کے اسی حکم  فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ کا بیان ہے۔

اسی لیے نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کے خلال کو واضح الفاظ میں اللہ تعالى کا حکم قرار دیا ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

«أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا تَوَضَّأَ، أَخَذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ فَأَدْخَلَهُ تَحْتَ حَنَكِهِ فَخَلَّلَ بِهِ لِحْيَتَهُ»، وَقَالَ: «هَكَذَا أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ»

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم جب وضوء فرماتے  تو ایک ہتھیلی پانی  کی لے کر اپنی تھوڑی کے نیچے داخل کرتے اور ا سکے ساتھ اپنی داڑھی کا خلال فرماتے۔ اور کہتے میرے رب عزوجل نے مجھے اسی طرح حکم دیا ہے۔

(سنن أبی داود: 145)

اس آیت اور حدیث کی رو سے داڑھی کا خلال کرنا فرض ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ اور اسکے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کا حکم فرضیت پہ  دلالت کرتا ہے۔

ازالۃ الشبہات

کچھ اہل علم کی طرف سے اس روایت پر دو اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ ایک تو ولید بن زوران کی ثوثیق کے حوالہ سے ہے اور دوسرا  سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے انکےسماع کے بارہ میں۔

ولید بن زوران کی توثیق:

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَإِنْ كَانَ جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ رَوَاهُ، عَنْ مَيْمُونٍ، وَمَعَهُ الْوَلِيدُ بْنُ زَوْرَانَ، كِلَاهُمَا عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، مَوْصُولًا، وَكُلٌّ بِحَمْدِ اللَّهِ ثِقَةٌ، فَلَا مَعْنًى لِلطَّعْنِ فِي رِوَايَةِ الثِّقَاتِ

اور اگر جعفر بن برقان نے اسے میمون  سے روایت کیا ہے اور اسکے ساتھ ولید بن زوران بھی ہے اور دونوں میمون بن مہران سے موصولا روایت کرتے ہیں اور یہ سبھی بحمد اللہ تعالى ثقہ ہیں تو ثقات کی روایت میں طعن کرنے کا کوئی معنى ہی نہیں!

(معرفة السنن والآثار كتاب المناسك باب نكاح المحرم ج 7 ص 184 ح9746 )

امام نووی اسی روایت کے بارہ میں فرماتے ہیں :

وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ أَوْ صَحِيحٌ 

المجموع شرح المهذب ((مع تكملة السبكي والمطيعي)) ج 1 ص 376

حافظ ابن حجر:

كحديث أبي المليح الرقي عن الوليد بن زوران عن أنس - رضي الله عنه -.أخرجه أبو داود وإسناده حسن، لأن الوليد وثقه ابن حبان ولم يضعفه أحد وتابعه عليه ثابت البناني عن أنس - رضي الله عنه -.

جیسا کہ ابو الملیح الرقی کی حدیث از ولیدبن زوران از انس رضی اللہ عنہ ہے جسے ابو داود نے نقل کیا ہے اور اسکی سند حسن ہے کیونکہ ولید کو ابن حبان نے ثقہ کہا ہے اور کسی نے بھی اسے ضعیف قرار نہیں دیا اور ثابت بنانی نے انس رضی اللہ عنہ سے یہی روایت نقل کرنے میں اسکی متابعت کی ہے۔

کتاب النكت على كتاب ابن الصلاح ج 1 ص 422،423 

یعنی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ولید بن زوران کی روایت کو حسن السند فرما رہے ہیں۔ اور کسی محدث کی کسی سند کو حسن یا صحیح کہنا اسکی طرف سے اس سند میں مذکور رواۃ کی توثیق ہوتی ہے۔ سو ولید بن زوران حافظ صاحب کے نزدیک ثقہ ہے۔

النکت لکھنے سے قبل تقریب میں حافظ صاحب نے ولید بن زوران کو لین الحدیث قرار دیا تھا۔ لیکن انکا ولید کو لین کہنا انکے بعد والے حکم  اور امام بیہقی کی توثیق کے خلاف ہونے کی وجہ سے ساقط الاعتبار ہے۔

حافظ ذہبی  ميزان الاعتدال في نقد الرجال(4/338) میں فرماتے ہیں : 

ماذا بحجة

لیکن الكاشف (ج 2 ص 351) میں ثقۃ  کہا ہے۔

انکے سوا کسی بھی ناقد نے اس  پر جرح یا تعدیل نہیں کی، ہاں عدم معرفت کا اظہار ضرور کیا ہے۔ اور یہ کوئی جرح نہیں۔

جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ولید بن زوران ثقہ راوی ہے کیونکہ  امام بیہقی نے انکی توثیق کی ہے اور  ابن حبان نے اسے کتاب الثقات(11422) میں ذکر کیا ہے۔  اور امام نووی نے انکی روایت کو حسن یا صحیح کہا ہے۔جبکہ حافظ ابن حجر نے پہلے تقریب میں انہیں لین  لیکن بعد میں النکت میں انہیں حسن الحدیث قرار دیا ہے۔ جبکہ امام ذہبی  نے بھی کاشف میں ثقہ کہا  لیکن پھر میزان میں ما ذا بحجۃ  کہا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ذہبی کا کاشف والا فیصلہ درست ہے۔ میزان والا نہیں۔ کیونکہ توثیق آئمہ متقدمین کی توثیق کے موافق ہے۔ جبکہ جرح کسی  اور ناقد سے ثابت نہیں۔

ولید کا انس رضی اللہ عنہ سے سماع:

ولید بن زوران کی روایت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے صحیح و ثابت ہے۔ اسکا انکار کسی نے بھی نہیں کیا۔ اور ولید کے لیے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سماع کا امکان بھی موجود رہا ہے۔  رہا  امام ابو داود کا  کہنا  ’’لا ندري سمع من أنس أم لا‘‘ کہ ہم نہیں جانتے کہ اس نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا ہے یا نہیں۔ تو اس سے عدم سماع ثابت نہیں ہوتا بلکہ محض یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوداود رحمہ اللہ کو ولید کے انس رضی اللہ عنہ سے سماع کے بارہ میں  علم نہ تھا۔

لہذا  محدثین کے اصول کے مطابق  یہ روایت متصل السند ہے اور اسکے رواۃ ثقات ہیں۔ یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بارہ میں جو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ صحت روایت کے لیے ثبوت سماع کی شرط لگاتے تھے صرف امکان سماع پر اکتفاء نہیں کرتے تھے تو یہ بات بھی صرف انکی الجامع الصحیح کی حد تک ہے۔

متابعات:

 اس روایت کو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے نقل کرنے میں ولید بن زوران متفرد نہیں ہیں جیسا کہ سابقہ سطور میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  کا قول مذکور ہے کہ ولید بن زوران کی متعابعت ثابت بنانی  نے کر رکھی ہے۔ ثابت بنانی سے یہ الفاظ نقل کرنے والے أبو حفص عمر بن حفص العبدي ہیں جن سے سليمان بن إسحاق بن سليمان بن علي بن عبدالله بن عبَّاس، يعقوب بن كعْب اور علي بن حُجر نے یہ روایت نقل کی ہے۔ انکی روایت الطبراني (4465،( المجالسة (949)، العقيلي (3/ 155) میں ہے۔ لیکن یہ عمر بن حفص ضعیف ہے۔ پھر ثابت بنانی سے روایت کرنے میں یہ متفرد نہیں بلکہ اسکی متابعت عمر بن ذؤیب نے کر کرکھی ہے۔ اسے العقيلي (3/ 157) نے ذکر کیا ہے۔ اور یہ عمر بن ذؤیب مجہول ہے۔

پھرانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے میں ولید بن زوران کی متعابعت ثابت بنانی کے سوا  مطر الوراق نے بھی کر رکھی ہے۔

اسے طبرانی نے الاوسط (2976) میں اور عبد الکریم الاصبہانی نے اپنے جزء:(773) میں بطریق عَتَّابُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شَوْذَبٍ، عَنْ عِيسَى الْأَزْرَقِ ذکر کیا ہے۔ اور عتاب بن محمد بن شوذب مستقیم الحدیث ہےاور عیسی الأزرق المعروف بـ غنجار صالح، زاهد، ثقة، مشهور ہے۔ اور مطر الوراق، صدوق ہے مگر کثیر الخطأ ہے۔ سو اسکی روایت متعابعات و شواہد میں قبول ہوتی ہے۔ اور یہاں بھی اسکی روایت اسی ضمن میں نقل کی جا رہی ہے۔ یعنی یہ روایت حسن بنتی ہے۔

پھر انس بن مالک سے روایت کرنے میں ولید کی متابعت ثابت بنانی اور مطر الوراق کے علاوہ امام زہری نے بھی کی ہے۔

اسے حاکم نے مستدرک(529) طبرانی نے مسند الشامیین (691) اور السلفی نے مشیخہ بغدادیۃ (84) اور میانجی نے اپنے جزء (23) میں بطریق محمَّد بن حرْب، عن الزبيدي نقل کیا ہے۔

اور ابن حرب سے محمد بن خالد الصفار اور دو أوثق الناس عن محمد بن حرب یعنی محمد بن وہب بن ابی کریمۃ اور کثیر بن عبید الحذاء نے نقل کیا ہے۔

الغرض یہ سند بے غبار ہے!

اسی طرح انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث انہی الفاظ کے ساتھ معاویۃ بن قرۃ نے بھی نقل کی ہے۔ اسے ابن عدی نے الکامل (4/148) میں نقل کیا ہے۔ لیکن اسکی سند میں سلام الطویل اور اسکا شیخ زید العمی دونوں ضعیف ہیں۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے میں ولید بن زوران کی متابعت محمد بن زیاد نے بھی کی ہے۔ اسے بھی ابن عدی نے الکامل (8/419) میں نقل کیا ہے۔ مگر اسکی سند میں ھاشم بن سعید ضعیف ہے۔

پھر ولید کی متابعت میں  ابو خالد الضبی بھی ہیں جنکی روایت بیہقی نے (323) بطریق أبو عبدالله الحافِظ، ثنا أبو العبَّاس محمَّد بن يعقوب، ثنا العبَّاس بن محمَّد الدوري، ثنا معاذُ بن أسد، ثنا الفضلُ بن موسى، ثنا السكَّري - يعني: أبا حمزة، عن إبراهيم الصائِغ نقل کی ہے۔ اور یہ سند بھی حسن ہے۔

بعض الناس کی طرف سے اس سند پہ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ابو خالد الضبی کا سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ۔ جبکہ یہ بے بنیاد بات ہے کیونکہ ابن مندہ نے کہا ہے :

أدْرك أنس بن مَالك

(فتح الباب في الكنى  والالقاب  لابن منده  ص 279 ت  2394) 

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے :

وسؤر الأسد: لقب محمد بن خالد الضبي، صاحب أنس بن مالك.

(تبصير المنتبه بتحرير المشتبه ج 2 ص 792)

الغرض سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح یا حسن  ولید بن زوران، امام زہری، مطر الوراق، ابو خالد الضبی نے یہ روایت نقل کی ہے۔

ثابت البنانی سمیت اور بھی کئی نام ہیں جنہوں نے متابعت کی ہے مگر ان تک سند صحیح نہیں ہے۔

بہر حال ولید بن زوران اور اسکے تین متابعین کی وجہ سے یہ ورایت کم از کم صحیح لغیرہ کے درجہ تک پہنچتی ہے۔

شواہد:

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے ھکذا أمرنی ربی  کے الفاظ نقل کرنے میں أنس بن مالک رضی اللہ عنہ متفرد نہیں ہیں! بلکہ یہ الفاظ درج ذیل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی مروی  ہیں:

1-        سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

رأيت رسول الله صَلى الله عَليه وسَلم توضأ فخلل لحيته مرتين وقال: هكذا أمرني ربي عز وجل.

میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو وضوء کرتے دیکھا تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنی داڑھی کا دو مرتبہ خلال کیا اورفرمایا مجھے میرے رب عز وجل نے اسی طرح حکم دیا ہے۔

الکامل لابن عدی: ج2 ص554 رقم 1237، ط. الرشد: 3299

اسکی سند میں تمام بن نجیح الاسدی ضعیف ہے۔

2-        سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَطَهَّرُ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ إِنَاءٌ قَدْرَ الْمُدِّ، وَإِنْ زَادَ فَقَلَّ مَا يَزِيدُ، وَإِنْ نَقَصَ فَقَلَّ مَا يَنْقُصُ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ، وَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَخَلَّلَ لِحْيَتَهُ، وَغَسَلَ ذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ وَأُذُنَيْهِ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ، وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ حَتَّى أَنْقَاهُمَا. فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَكَذَا التَّطَهُّرُ؟ قَالَ: «هَكَذَا أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ»

میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم وضوء فرما رہے تھے اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مد کے برابر برتن تھا، اگر وہ اس سے زیادہ تھا تو تھوڑا ہی زیادہ بڑا ہوگا اور اگر کم تھا تو تھوڑا ہی کم ہوگا۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور کلی کی ، نا ک میں پانی چڑھایا تین تین بار اور تین بار اپنا چہرہ دھویا اور داڑھی کا خلال کیا ، اور تین بار بازو دھوئے  اور سر اور کانوں کا دو دو بار مسح کیا اور اپنے پاؤں دھوئے حتى کہ انہیں صاف کر لیا۔ تو میں عرض کیا اے اللہ کے رسول ! صلى اللہ علیہ وسلم  اسی طرح وضوء ہے؟ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرے رب عز وجل نے اسی طرح حکم دیا ہے۔

المعجم الأوسط للطبراني:ج 2 ص 377 ح  2277 اور فوائد تمام : ج2 ص 290 ح 1775

اس کی سند میں ابو ہرمز نافع بن ہرمز متروک الحدیث ہے۔

3-        سیدنا عبد اللہ بن شداد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - تَوَضَّأَ فَخَلَّلَ لِحْيَتَهُ بِأَصَابِعِهِ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا أَمَرَنِي ربي عز وجل أن أخلل.

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے وضوء کیا تو اپنی انگلیوں کے ساتھ اپنی داڑھی کا خلال کیا پھر فرمایا مجھے میرے رب عز وجل نے اس طرح حکم دیا ہے کہ میں داڑھی کا خلال کروں۔

مسند مسدد کما فی المطالب العالیۃ: ج2 ص 295 ح91

اس کی سند میں محمد بن جابر السحیمی  مختلط ضعیف ہے۔لیکن متابعات وشواہد میں اسکی روایت قبول ہوتی ہے۔ اور عبد اللہ بن شداد رضی اللہ عنہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیدا ہوئے تھے۔

سیر أعلام النبلاء: 110،  الإصابة: 6192، الاستیعاب: 1573

البتہ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلى ا للہ علیہ وسلم سے نہیں سنا۔

العلل: 3524

4-        سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

خَلِّلُوا لِحَاكُمْ وَأَظْفَارَكُمْ

اپنی داڑھیوں اور ناخنوں (انگلیوں) کا خلال کرو۔

فوائد تمام الرازی: 1/356 (905)، جزء من  حدیث أبی العباس الأصم: 3

اس کی سند میں عیسى بن عبد اللہ اور عثمان بن عبد الرحمن ضعیف ہیں۔

5-        سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ معنى ایک اور الفاظ میں بھی مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: خَلِّلُوا لِحَاكُمْ»

اللہ تعالى نے فرمایا ہے اپنی داڑھیوں کا خلال کرو۔

المعجم الأوسط للطبرانی: 1062

لیکن اس کی سند میں  احمد بن عبد الرحمن التمیمی ضعیف، اور سعید بن یزید اور ابو یحیى  نجیح الحرانی القواس مجہول ہیں۔

خلال کے ثبوت میں مزید دلائل:

تخلیل لحیۃ کو وضوء میں ثابت کرنے پہ کئی روایات دلالت کرتی ہیں، مثلا:

1-        سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُخَلِّلُ لِحْيَتَهُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داڑھی کا خلال كيا کرتے تھے ۔

جامع الترمذی : 31

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

قَالَ مُحَمَّدٌ: أَصَحُّ شَيْءٍ عِنْدِي فِي التَّخْلِيلِ حَدِيثُ عُثْمَانَ ، قُلْتُ: إِنَّهُمْ يَتَكَلَّمُونَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: هُوَ حَسَنٌ

امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: داڑھی کے خلال کے متعلق میرے نزدیک سب سے صحیح حدیث ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ۔ میں نے سوال کیا ، لوگ تو اس حدیث پر کلام کرتے ہیں؟ فرمایا : یہ حدیث حسن ہے ۔

[العلل الکبیر للترمذي : 19]

اس حدیث کوامام ترمذی نے بھی حسن کہا ہے۔

جامع الترمذی: 31

حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ نے بھی حسن قرار دیا ہے

البدر المنیر: 2/185

2-         سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَوَضَّأَ خَلَّلَ لِحْيَتَهُ بِالْمَاءِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے تو داڑھی کا خلال کرتے تھے ۔

مسند أحمد :  25970 ، 25971

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔

التلخیص الحبیر : 1/150

اشکال:

اسکی سند میں طلحہ بن عبید اللہ بن کریز ہے، اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسکا سماع کسی نے ذکر نہیں کیا۔ یہی بات محققین مسند احمد نے 43/119 میں کہی ہے۔

حل:

متقدمین محدثین میں سے کسی نے طلحہ بن عبیداللہ کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت کو مرسل نہیں کہا ۔ اور طلحہ بن عبید اللہ بن کریز نے ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا زمانہ پایا ہے اور ان سے روایت لی ہے۔ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سماع کی صراحت انہوں نے کی ہے۔

الشریعہ للآجری : 975،976، غریب الحدیث للحربی: 3/1132

 جبکہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پا گئی تھیں۔

تقریب التہذیب: 8737

جب ان سے سماع کیا ہے تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سماع میں کوئی مانع نہیں رہتا۔  حافظ مزی نے تہذیب میں انکے مشایخ میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ذکر بھی کیا ہے۔

تہذیب الکمال: 2976

3-            سیدنا ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كَانَ إِذَا تَوَضَّأَ خَلَّلَ لِحْيَتَهُ»

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم جب وضوء کیا کرتے تو اپنی داڑھی کا خلال فرماتے۔

الطہور للقاسم بن سلام : 317

ابو  غالب بیان کرتے ہیں :

قُلْتُ لِأَبِي أُمَامَةَ: أخْبِرْنَا عَنْ وُضُوءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «فَتَوَضَّأَ ثَلَاثًا، وَخَلَّلَ لِحْيَتَهُ»، وَقَالَ: «هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ»

میں نے سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے کہا :مجھے رسول اللہ کا وضو بتلایئے تو انہوں نے تین تین مرتبہ وضو کیا اور داڑھی کا خلال کیا اور فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

مصنف ابن أبي شيبة: 112

حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فإسناد هَذَا الطَّرِيق حسن.

اس کی سند حسن ہے۔

البدر المنیر : 2/190

شواہد:

ان تین  حسن لذاتہ  احادیث کے سوا کچھ کمزور روایات بھی  اس معنى میں موجود ہیں جو انکی شاہد بنتی ہیں۔ مثلا:

1-         سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَوَضَّأَ عَرَكَ عَارِضَيْهِ بَعْضَ الْعَرْكِ ثُمَّ شَبَكَ لِحْيَتَهُ بِأَصَابِعِهِ مِنْ تَحْتِهَا

رسول اللہ ﷺ جب وضو کرتے تھے تو رخساروں کے بالوں کو تھوڑا سا ملتے تھے۔ پھر داڑھی میں نیچے کی طرف انگلیاں ڈال کر خلال کرتے تھے۔

سنن ابن ماجه: 432

اسکی سند میں عبد الواحد بن قيس الأفطس ہے جو کہ صدوق  ہے لیکن حافظہ میں کوتاہی کی وجہ سے اوہام کا شکار ہو جاتا تھا، متابعات وشواہد میں اسکی روایت قبول ہوتی ہے۔

2-        نافع رحمہ اللہ  عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

أَنَّهُ كَانَ إِذَا تَوَضَّأَ خَلَّلَ لِحْيَتَهُ وَأَصَابِعَ رِجْلَيْهِ، «وَيَزْعُمُ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ ذَلِكَ»

جب وہ وضوء کیا کرتے تو اپنی داڑھی اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرتے، اور یہ سمجھتے تھے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔

المعجم الأوسط للطبرانی: 1363

اس کی سند میں عبد اللہ بن عمر العمری ضعیف ہے، اور مؤمل بھی سیء الحفظ ہے۔

3-        سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

وضأت النبي صَلى الله عَليه وسَلم غير مرة، ولا مرتين، ولا ثلاثا، ولا أربعا، فرأيته يخلل لحيته بأصابعه، كأنها أنياب مشط.

میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو وضوء کروایا، ایک یا دو یا تین یا چار مرتبہ نہیں (کئی مرتبہ) آپ صلى ا للہ علیہ وسلم اپنی داڑھی کا اپنی انگلیوں سے ایسے خلال کرتے تھے جیسے وہ کنگھی کے دندانے ہوں۔

الکامل لابن عدی: 2573

    اسکی سند میں اصرم  بن غیاث ضعیف ہے۔

4-        سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يُخَلِّلُ لِحْيَتَهُ

میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو داڑھی کا خلال کرتے دیکھا۔

جامع الترمذی:30، سنن ابن ماجہ: 429

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تلخیص میں کہا ہے :

وَحَسَّانُ ثِقَةٌ، لَكِنْ لَمْ يَسْمَعْهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ مِنْ سَعِيدٍ، وَلَا قَتَادَةُ مِنْ حَسَّانَ.

اور حسان ثقہ ہے، لیکن یہ حدیث ابن عیینہ نے سعید سے نہیں سنی، اور نہ ہی قتادہ نے حسان سے سنی ہے۔

التلخیص الحبیر: 1/149 ط. قرطبۃ، 1/223  (332) ط. دار ابن حزم

لیکن  سفیان بن عیینہ نےسعید بن ابی عروبہ سے سماع کی صراحت   کی ہوئی ہے۔

مستدرک حاکم: 528

اور حسان بن بلال کی عمار رضی اللہ عنہ سے سماع کی صراحت موجود  توہے۔

مسند الطیالسی: 680، مسند ابن أبی شیبۃ: 433، مصنف ابن أبی شیبۃ: 98

لیکن اس سند میں ابو امیہ عبد الکریم بن ابی المخارق ضعیف ہے۔ اور امام ابن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عبد الکریم نے داڑھی کے خلال والی  حدیث حسان سے نہیں سنی!

جامع الترمذی: 30

الغرض یہ روایت انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔

5-        سیدنا عبد اللہ بن عُکبَرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

التَّخَلُّلُ سُنَّةٌ

خلال کرنا سنت ہے۔

المعجم الصغیر للطبرانی: 941

لیکن اس کی سند میں بھی عبد الکریم  ابو امیہ ضعیف ہے۔

6-        سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - تَوَضَّأَ فَخَلَّلَ لِحْيَتَهُ

میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو وضوء کرتے دیکھا تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنی داڑھی کا خلال فرمایا۔

سنن ابن ماجہ: 433

اس کی سند میں واصل بن السائب الرقاشی اور ابو سورۃ دونوں ضعیف ہیں۔

7-        ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «إِذَا تَوَضَّأَ خَلَّلَ لِحْيَتَهُ»

نبی صلى اللہ علیہ وسلم جب وضوء فرماتے تو اپنی داڑھی کا خلال فرماتے۔

المعجم الکبیر للطبرانی: ج 23 ص 298 رقم 664

اس کی سند میں خالد بن الیاس متروک الحدیث ہے۔

8-        ابو البختری سعید بن فیروز الطائی کہتے ہیں:

رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُخَلِّلُ لِحْيَتَهُ إِذَا تَوَضَّأَ وَيَقُولُ هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم يفعل.

میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو وضوء میں داڑھی کا  خلال کرتے دیکھا  اور وہ فرما رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا تھا۔

جزء فيه ما انتقى أبو بكر أحمد بن موسى ابن مردويه على أبي القاسم الطبراني من حديثه لأهل البصرة: 52

اس کی سند ہشیم بن بشیر کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔

9-        سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی الاسلمی رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا اے ابو معاویہ! آپ نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو کس طرح وضوء کرتے دیکھا تھا؟

«فَتَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ، وَخَلَّلَ لِحْيَتَهُ فِي غَسْلِهِ وَجْهَهُ» ، ثُمَّ قَالَ: «هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ»

تو انہوں نے تین تین بار اعضائے وضوء کو دھویا اور چہرہ دھوتے ہوئے داڑھی کا خلال کیا پھر فرمایا میں نے اس طرح رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو وضوء کرتے دیکھا تھا۔

الطہور للقاسم بن سلام: 82

اسکی سند میں ابو الورقاء فائد بن عبد الرحمن العبدی متروک الحدیث ہے۔

10-     جبیر بن نفیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

«كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إذَا تَوَضَّأَ خَلَّلَ أَصَابِعَهُ وَلِحْيَتَهُ، وَكَانَ أَصْحَابُهُ إذَا تَوَضَّئُوا خَلَّلُوا لِحَاهُمْ» .

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم جب وضوء فرماتے تو اپنی انگلیوں اور داڑھی کا خلال کرتے اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بھی جب وضوء کرتے تو اپنی داڑھیوں کا خلال کرتے۔

سنن سعيد بن منصور كما ذكره الحافظ في التلخيص: ط. دار ابن حزم 1/227 (344)، ط. قرطبة 1/152

یہ روایت مرسل ہے ، اور اسکی سند میں ولید بن مسلم ثقۃ مدلس  ہے جو عن سے بیان کر رہا ہے اور سعید بن سنان ضعیف ہے۔

تلك عشرة كاملة...!

 

-:نتیجۃ البحث:-

اس ساری بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ داڑھی کا خلال فرض ہے کیونکہ

  • فرمان باری تعالى ’’فاغسلوا وجوھکم میں داڑھی کا خلال بھی شامل ہے۔
  • رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے بھی داڑھی کے خلال کو اللہ تعالى کا حکم قرار دیا ہے جیسا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی  حسن لذاتہ روایت سے ثابت ہے،  جس کی شہادت میں تین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مرویات بھی موجود ہیں ، گوکہ انکی سند میں کمزوری ہے۔ اور ایک مرسل روایت بھی ہے۔
  • اللہ تعالى کا حکم یا نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا حکم فرضیت پہ دلالت کرتا ہے، الا کہ کوئی قرینہ صارفہ ہو۔ داڑھی کے خلال کا حکم موجود ہے اور کوئی قرینہ ایسا نہیں جو اس حکم کو فرضیت کے بجائے استحباب پہ محمول کرتا ہو۔ کیونکہ کسی بھی صحیح حدیث میں داڑھی کا خلال چھوڑنے کی وضاحت نہیں ہے۔ یاد رہے کہ بعض روایات  میں داڑھی کے خلال کاذکر نہ ہونا قرینہ صارفہ نہیں بنتا ، کیونکہ عدم ذکر عدم ثبوت کو مستلزم نہیں ہوا کرتا۔
  • صیغہ امر کے بغیر نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے داڑھی کا خلال کرنا روایت کیا ہے جن میں سے تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مرویات بسند صحیح اور نو صحابہ کر ام  کی مرویات بسند ضعیف اور ایک مرسل روایت آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں۔
  • صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کثیر تعداد سے داڑھی کا خلال کرنا ثابت ہے، لیکن بغرض اختصار انہیں پیش نہیں کیا گیا۔
  • اس بحث سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا وضوء میں داڑھی کا خلال کرنا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں مشہور و معروف تھا۔ اور موقوفات پہ نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں بھی یہ عمل متواتر ومعروف رہا ہے۔ اور اسکے بعد تابعین میں بھی، وھلم جرا.... ۔
  • لہذا یہ کہنا کہ داڑھی کا خلال وضوء میں شامل نہیں، یا سنت سے ثابت نہیں، درست اور صائب خیال ہرگز نہیں ہے۔ درست بات یہی ہے کہ یہ عمل نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے نہ صرف ثابت ہے، بلکہ فرض اور واجب ہے۔

هذا ، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم وصلى الله تعالى على نبينا محمد وآله وأصحابه وبارك وسلم

  • الثلاثاء PM 07:27
    2022-12-27
  • 806

تعلیقات

    = 8 + 6

    /500
    Powered by: GateGold