میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
علم سے دوری کیوں؟
الحمدُ لِلهِ الوَاحِدِ الدَّيَّان، الذِي عَلَّمَ الإِنْسَان، وَأَلْهَمَ التِّبْيَان، وَالصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَى أَعْلَمِ الْبَشَرِ مِنْ آلِ عَدْنَان، الْمَبْعُوْثِ إِلى كَافَّةِ الإِنْسِ وَالْجِنَّان، وَعَلَى أَصْحَابِهِ مُطْمِئِنِّيْ الْجَنَان، الذين وَرِثُوا الْجِنَان. أما بعد!
فقال الله تعالى: هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
وقال النبي صلى الله عليه وسلم: إِنَّ اللهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا، اتَّخَذَ النَّاسُ رُؤَسَاءَ جُهَّالًا، فَسُئِلُوا، فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا، وَأَضَلُّوا.
ہوِیدا آج اپنے زخم پِنہاں کرکے چھوڑوں گا
لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کرکے چھوڑوں گا
جلانا ہے مجھے ہر شمعِ دل کو سوزِ پنہاں سے
تیری تاریک راتوں میں چراغاں کرکے چھوڑوں گا
مگر غُنچوں کی صورت ہوں دل در آشنا پیدا
چمن میں مشتِ خاک اپنی پریشاں کرکے چھوڑوں گا
پِرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
جو مشکل ہے تو اس مشکل کو آساں کرکے چھوڑوں گا
مجھے اے ہم نشیں رہنے دے شُغلِ سینہ کاوی میں
کہ میں داغ ِمحبت کو نُمایاں کرکے چھوڑوں گا
دِکھادوں گا جہاں کو جو میری آنکھوں نے دیکھا ہے
تجھے بھی صورتِ آئینہ حیراں کرکے چھوڑوں گا
سامعین کرام!
آج کی اس پروقار علمی وادبی مجلس میں اربابِ فکر ودانش نے جس موضوع کو سخن گوئی کا محور قرار دیا ہے وہ ہے'' علم سے دوری کیوں؟''
موضوع کی جلالتِ شان تو تفصیل کی متقاضی ہے، جبکہ وقت تنگی ِداماں کا شاکی، تاہم موضوع کی دلپذیر وُسعتوں کو اِشاروں اور کِنائیوں میں سمیٹنے کی کاوش کرونگا تاکہ برہمِ اختصارِ وقت بھی رہ جائے، اور موضوع کی گہرائی وگِیرائی بھی نقص سے مأمون رہے۔ کیونکہ
اہلِ معنى کو لازم ہے سُخن آرائی بھی
بزم میں اہل ِنظر بھی ہیں ، تماشائی بھی !
حاضرین مجلس!
فاطر ِہستی کا ازل سے دستور ہے کہ علم وعرفان اور تعلُّم وادراک کے لیے اساتذہ کے رو برو زانوئے تلمُّذ تہ کیے جاتے ہیں۔ اور قلبِ تلمیذ میں شغفِ مدرس جنم لیتا ہے ۔ اور تکریم شیخ علم کا جُزوِ لا یَنْفَکّ ہوا کرتا ہے۔ لیکن جب سمع وطاعہ کا مادہ ہی روحِ طالب سے رختِ سفر باندھ لے تو گَردُوں میں وہ عاصی شمار ہوتا ہے، اور عاصی کے متعلق تو کہنے والے نے کہا ہے:
إِنَّ العِلمَ نورٌ مِّنَ الإِلَهِ
فَنُوْرُ اللهِ لا يُعطَى لِعَاصٍ
اور ایک دوسرے نے یہی بات یوں سمجھائی:
إِنَّ المُعَلِّمَ والطَّبيبَ كِلاهُما
لا يَنْصَحَانِ إِذْ هُما لم يُكْرَمَا
فاصبِرْ لِدَائِكَ إِنْ عَصَيْتَ طَبِيْبًا
وَاقْنَعْ بِجَهْلِكَ إِنْ جَفَوْتَ مُعَلِّمًا
آسمان علم کے درخشندہ ستارو!
آج نوبت بہ ایں جا رسید کہ مدرسے مرثیہ خواں کہ صاحبِ اوصافِ حجازی نہ رہے، علم کی تابانیاں نہ رہیں، عمل کی درخشانیاں نہ رہیں، ساقیانِ علم ِنبوت کہاں کھوگئے؟، وارثانِ میراثِ نبوی کہاں چل بسے؟، مقام فکر ہے کہ قاسمِ وِرثہءِ سید ِ البشر بھی وہی، ورثان ِ مَسندِ نبوی بھی وہی، آغوشِ تعلُّم بھی وہی،نہ جام نیا، نہ بادہ نیا، نہ ساقیِ جام بدلے، پھر فُقدانِ علم ہے تو کیوں ہے؟ عدمِ معرفتِ وحیِ الہی کا سیل، رواں ہے تو کیوں ہے؟ علمِ سیدِ الانام سے بے اِعتِنائی ہے تو کیوں ہے؟ حقیقت ہے کہ کچھ نہیں بدلا، سب کچھ وہی ہے، اگر بدلے ہیں تو اس دارِ ارقم کے مکینوں کے تخیُّلات بدلے ہیں، کہ جن میں قدر و معرفتِ شیخِ مکتب نہ رہی، ذوقِ آہ ِسحرگاہی نہ رہا، شب کی آہیں نہ رہیں، صبح کے نالے نہ رہے، خلوتیں تو کُجا جلوتیں بھی عِصیاں سے برکنار نہ رہِیں،عُشَّاقِ علم سا وہ قلب وجگر نہ رہا، خورشیدِ علم کی تنویروں کو شبِ تِیرہءِ جَہل سے واگزار کرانےکا جذبِ پیہم نہ رہا۔
خُدا تجھے کسی طُوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اِضْطِرَاب نہیں
تجھے کتاب سے فراغ نہیں ممکن ، کہ تو
کتاب خواں تو ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں !
عنادِلِ گلشنِ محمدیہ!
ساقیانِ جام کے بھی -خَاکَمْ بَدَہَنْ-اَطوار بدلے ہیں، ساقی جام بدست تو ہے ، لیکن پیمانہ ہے کہ بے صَہْبا، شمع ِ علم تو روشن ہے مگرسوزِ دَرُوں سے خالی ہے! اسکا شُعلہ مثلِ چراغِ لالہءِ صحرا ہے! آئینہ زِشْت رُوئی کا شکار ہے، شوقِ بے پروا شورِیدہ سر ہے! تنگ صحرا ء وبے لیلى مَحمَل میں قَیس پیدا نہیں ہوتے!
جو بادہ کَش تھے پُرانے اُٹھے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی
اے شیخِ مکتب! ، اے دُر ِّتابِندہ! ، اے پَروُردَہءِ آغوشِ موج!
عَفْوًا ... ثُمَّ عَفْوًا ... کہ تیرادریا لذتِ طوفاں سے نا آشنا ہے۔ تیرا تَرَنُّم بے محل، تیرانغمہ بے موسم ہے۔ وعدہءِ دیدارِ عام سےپہلے قلوبِ عُشاق میں ذوقِ تماشا پیدا کیجئے۔ محفل میں آتِش بَجَام آنے سے قبل وہ پُرانے شُعلہ آشام پیدا کیجئے۔ ڈھونڈ لائیے کہیں سے وہ سوز وسازکہ تارہائے دلِ پروانہ کو چُھو لے
شمعِ محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا
تیرے پروانے بھی اس لذت سے بیگانے رہے
رشتہءِ اُلفت میں جب ان کو پِرو سکتا تھا تو
پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے
شوقِ بے پروا گیا ، فکرِ فلک پیما گیا
تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فَرزانے رہے
وہ جِگر سوزی نہیں ، وہ شُعلہ آشامی نہیں
فائدہ پھر کیا ، جو گردِ شمع پروانے رہے
خیر ، تو ساقی سہی، لیکن پلائے گا کسے
اب نہ وہ مے کش رہے باقی، نہ مے خانے رہے
رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مِینا اسے
کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے
آج ہیں خاموش وہ دشت ِجُنوں پَروَر جہاں
رقص میں لیلی رہی ، لیلی کے دیوانے رہے
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
اے باغبانِ گلشن!
شکوہءِ اَربابِ وفا بھی سن لے..... اور خُوگَرِ حمد سے تھوڑا سا گِلہ بھی سن لے.... کہ... عِلم سے دُوری وبے اِعتِنائی کے مِن جُملہ اسباب میں ،قَیسِ دارِ اَرقم کی لیلائے عِلم تک عدم رسائی بھی ہے!مکتبۃُ الجامعہ سے فِراق کی رات ، تِیرہ تَر اور طویل تَر ہوچکی۔اور کبھی چشمِ زَدن کے لیے وصال نصیب بھی ہو، تو مثلِ قُفلِ اَبْجَد، بات کے بنتے ہی جدا ہونا ،نَوِشْتہءِ تقدیر ہوتا ہے۔
حَیف کہ دَر چَشمِ زَدَن صحبتِ یار آخِر شُد
رُوئے گُل سَیر نہ دِیْدَم کہ بہار آخِر شُد
اور رُخِ قِرطاس پہ نگاہ پڑتے ہی:
زبان ِحال سے الفاظ یہ اعتراض کرتے ہیں
کبھی آپ ہم کو پڑھتے تھے ابھی آپ ہم سے ڈرتے ہیں
کیونکہ عارض ِ کُتُب کے دیدار کو نگاہِ شوق ترستی ہے، لیکن عُشَّاق نعرہءِ لَنْ تَرانِی ہی سننے کے پابند ہیں۔ نہ جانے کیوں اس زَبُوں حالی پہ بَزبانِ شاعر یہ تبصرہ کرنے کو جی چاہتا ہے:
اہلِ گُلشن کے لیے بابِ گُلشن بند ہے
اس قدر کم ظرف کوئی باغباں نہ ہو
میرِ کاروانِ عِلم وعِرفاں...! سالار ِ پاسبانانِ میراثِ والیِ بطحا...!
اس تِیرگیِ شبِ ہِجر کا بھی کچھ مَداوا کیجئے، خورشیدِمعرفت کی کِرنوں کو مُقَیَّد کرنے کی بجائے انکی ضِیاء پاشِیوں کااثر دیکھیے، یہ وہ گِہنائے قمر ہیں کہ جن کی تجلِّی سے طُلّاب کے یقیں اور قوموں کے مستقبل سنورتے ہیں، یہ وہ مِہر وماہ ہیں کہ جنکی تابِشوں سےآسمانِ فِکرو دانِش پہ نِت نئےسورج اُبھرتے اور رنگارنگ صُبحیں بِکھَرتی ہیں۔ یہ وہ حبیبِ اہلِ فن ہیں کہ جنکے عارِض ورُخسار کی دُھول بھی نَشاط اَفزاء ہے۔ انکے مُضمَحِل اوراق کی مہک ایسی عِطر آگِیں ہے کہ مُشک ِخَتن کی خوشبو بھی نِثار ہے۔ علم سے دُوریاں مٹانے میں آپکا یہ اقدام بھی تِریاق ہوگا۔ ان شاء اللہ۔ وگرنہ حضور کی جلالت شان کے آگے سوائے اسکے اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ:
اِک طرزِ تغافُل ہے، سو ان کو مبارک
اِک عرض تمنا ہے، سو ہم کرتے رہیں گے
وقت کی سُوئیاں بھی مجھ ایسے نَحِیْف سُخَنْوَر پہ تلقینِ ضَبْط کا کوہِ گراں سوار کر رہی ہیں، وگرنہ ابھی اور بھی حالِ دل کہتے، کہ گریباں چاک کیےزمانہ ہوا، اورابھی تو التفاتِ دلِ دوستاں نصیب ہوا تھا۔
افسوس کہ بے شمار سُخن ہائے گُفتنی
خوف ِفساد ِ'وقت' سے ناگفتہ رہ گئیں
اب میں انہی الفاظ پہ آپکی سمع خراشی سے تائب ہوتا ہوں کہ
جام ِعُمر اَبھی بھرا نہ تھا کفِ دستِ ساقی چھلک پڑا
رہِیں دل کی دل میں ہی حسرتیں نشان قضا نے مٹا دیا
-
الاحد PM 08:06
2024-02-18 - 1202