میلنگ لسٹ

بريديك

موجودہ زائرین

باقاعدہ وزٹرز : 148233
موجود زائرین : 22

اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
278
فتاوى
56
مقالات
188
خطبات

تلاش کریں

البحث

مادہ

ملٹی لیول مارکیٹنگ کی شرعی حیثیت

ملٹی لیول مارکیٹنگ کی شرعی حیثیت

محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ

مارکیٹنگ کے اس طریقہ کار کو ملٹی لیول مارکیٹنگ / نیٹ ورک مارکیٹنگ/ ڈائریکٹ مارکیٹنگ/ پیرا مڈ سیلز (Pyramid sales)   یعنی مخروطی طریقہ تجارت کا نام دیا جاتا ہے۔ اس میں بنیادی طور پر دو امور ہیں:

  • کمپنی کو کچھ فائدہ پہنچانا، خواہ کمپنی کو بلا عوض رقم جمع کروا کر ہو، کمپنی سے کوئی چیز خرید کر ہو، یا کمپنی کی پروڈکٹ کی ری سیلنگ کے ذریعے ہو۔
  • کمپنی کی خاطراسی طرح کام کرنے والے مزید ممبر بنانا۔

ان دو بنیادی کاموں کے بعد ہر کمپنی کا الگ الگ طریقہ واردات ہے، جس کے بعد کمپنی اپنے رکن (ممبر) کو مختلف درجات (لیول) کے حساب سے کمیشن دیتی ہے، اور یہ کمیشن اس ممبر کے  بلاواسطہ یا بالواسطہ کمپنی کو مہیا کردہ نئے ممبروں کی بنیاد پہ ہوتا ہے۔ یوں اس پہلے شخص کو اس کے بنائے گئے ممبروں کی محنت کے منافع میں شریک کر لیا جاتا ہے۔

اس عمل کا جواز بخشنے کے لیے وہ اک دلیل بھی دیتے ہیں کہ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً، فَعَلَيْهِ وِزْرُهَا، وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا

جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ نکالا تو اس کے لیے اسکا اجر ہے، اور ان لوگوں کا اجر بھی ہے جنہوں نے اس پہ عمل کیا، ان (عمل کرنے والوں)  کے اجر میں کچھ بھی کمی کیے بغیر۔اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ نکالا تو اس کے ذمہ اسکا گناہ بھی ہے اور ان لوگوں کا گناہ بھی ہے جو اس طریقے پہ عمل کریں گے ، ان (عمل کرنے والوں)  کے اجر میں کچھ بھی کمی کیے بغیر۔

سنن النسائی: 2554

لیکن اس صحیح حدیث سے ان کا استدلال درست نہیں، کیونکہ اس حدیث میں اخروی معاملہ یعنی ثواب وعقاب کا ذکر ہے۔ جبکہ کمپنی جو کام کرتی ہے وہ سرسر دنیوی معاملہ ہے۔ اور اخروی معاملہ پہ دنیوی معاملہ کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ اور اگر ہم دنیوی امور کو بھی اسی طرح قیاس کریں گے تو سارا نظام ہی خراب ہو جائے گا۔ مثلااگر کوئی کسی بے گناہ کو قتل کردے تو اس کے عوض قاتل کے ساتھ ساتھ قاتل کے والدین کو بھی قتل کیا جانا چاہیے کیونکہ اگر یہ پیدا ہی نہ ہوتا تو اس قتل کا ارتکاب نہ ہوتا، اور چونکہ والدین اس کی پیدائش کے ذمہ دار ہیں، سو وہ بھی اس کے جرم میں شریک ہونے چاہییں۔اسی طرح ایک استاذ جو بچوں کو پڑھتا ہےیا سکھاتا ہے ، بچے کے برسر روزگار ہو جانے کے بعد اس استاذ کو بھی تنخواہ یا آمدن میں سے حصہ ملنا چاہیے کہ اسے اس قابل بنانے میں اس کا بھی کردار ہے۔ اس بات پہ ذرا سا غور کرنے سے انکے استدلال کا بطلان واضح ہو جاتا ہے۔

شرعی حیثیت:

ملٹی لیول مارکیٹنگ کے بنیادی طریقے کو سمجھنے کے بعد اس کا حرام ہونا درج ذیل وجوہات کی بنا پر واضح ہو جاتا ہے:

  • دوسروں کی محنت کے عوض اراکین کو منافع دیا جاتا ہے۔ جبکہ ہر وہ حلال کام جس پہ انسان کی اپنی محنت نہ ہو، وہ اس میں کمیشن یا منافع ومعاوضہ کا حقدار نہیں بنتا۔ شریعت اسلامیہ میں مال کمانے کی دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو کوئی شخص اپنی کوئی شے کسی دوسرے کو فروخت کرے یا پھر اپنی محنت کے عوض اجرت یا منافع حاصل کرے۔ اور کوئی صورت مال کمانے کی نہیں ہے اور اسی طرف نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر اشارہ کیا ہے:

بِمَ يَأْخُذُ أَحَدُكُمْ مَالَ أَخِيهِ

تم میں سے کوئی بھی شخص کس چیز کے عوض اپنے بھائی کا مال لیتا ہے؟

صحیح البخاری: 2198

رہی کام سکھانے یا ترغیب دلانے کے عوض کمیشن حاصل کرنے کی بات تو وہ بھی صرف اپنی محنت کا بدلہ ہی ہوتا ہے، ان ملٹی لیول مارکیٹنگ والی کمپنیوں کی طرح مسلسل جاری رہنے والا معاوضہ نہیں ہوتا جو ان ممبران کے کام کے عوض ہو۔

  • یہ جوئے کی ایک صورت ہے، کیونکہ ممبر شپ حاصل کرنے والے تمام افراد اسی کمیشن کی خاطر ہی ممبر شپ حاصل کرتے ہیں، رہی پروڈکٹ تو وہ صرف ایک حیلے کے طور پر ہوتی ہے ۔ اور یہ کمیشن کسی بھی کمپنی میں یقینی نہیں ہوتا کیونکہ اس کا تعلق مزید ممبرز بنانے اور ان کے بھی آگے کام کرنے کے ساتھ مشروط ہوتا ہے، اور عین ممکن ہے کہ یہ شخص مزید ممبرز بنانے میں ناکام رہے یا ممبرز بنانے کے باوجود ان ممبرز کے کام نہ کرنے کی وجہ سے کمیشن سے محروم رہے۔ اور یہ واضح جوا ہے کہ کسی ایسی شے کے حصول کے لیے محنت یا مال لگایا جائے جس کا حصول یقینی نہ ہو ، جبکہ مال یا محنت کا صرف ہونا یقینی ہو۔
  • سبھی لوگ برابر محنت کر رہے ہوتے ہیں، لیکن ابتدائی لیول والے کو کمیشن نہیں ملتا، جبکہ ا س سے اوپر والے کو کمیشن ملتا ہے۔ پھر اس سے بھی اوپر والے کو اسی کام کا کمیشن زیادہ ملتا ہے۔ یوں جیسے جیسے عہدہ بڑا ہوتا جاتا ہے کمیشن بھی بڑھتا چلا جاتا ہے، جبکہ کام سبھی کا ایک سا ہوتا ہے۔یہ بھی جوئے ہی کی ایک صورت ہے کہ تمام مشارکین برابر مال یا محنت صرف کریں اور کسی کو زیادہ جبکہ کسی کو کم ملے۔ اور جوئے کی حرمت پہ کتاب وسنت کے بہت سے دلائل موجود ہیں۔ اللہ تعالى کا فرمان ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! بلا شک وشبہہ شراب، جوا، شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں، اور فال کے تیر سراسر گندے  ہیں، شیطان کے کام سے ہیں، سو اس سے بچو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

سورۃ المائدۃ: 90

اور یہ ایسا قبیح عمل ہے کہ اس کا ارتکاب تو درکنار اسکی خواہش کا اظہار بھی جرم ہے۔  سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ قَالَ لِصَاحِبِهِ: تَعَالَ أُقَامِرْكَ، فَلْيَتَصَدَّقْ

جس نے اپنے ساتھی سے کہا آؤ میں آپ کے ساتھ جوا کھیلوں تو اس پہ لازم ہے کہ وہ صدقہ کرے۔

صحیح البخاری: 4860

یعنی محض سٹے بازی کی طرف بلانے کا اتنا جرم ہے کہ کفارے کے طور پہ ایسا کرنے والے پہ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کچھ صدقہ کرنا واجب ہو جاتا ہے۔

  • بعض کمپنیوں کے طریقہ کار میں سود بھی ہے کہ مخصوص رقم جمع کروانا ہوتی ہے اور پھر مزید ممبرز بنانا ہوتے ہیں حتى کہ ایک خاص رقم اس رکن کو حاصل ہو جاتی ہے۔ اور سود کی حرمت بھی واضح ہے بلکہ سود خور کے خلاف تو اللہ نے اعلان جنگ فرمایا ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ  فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ

اے ایمان والو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو اگر تم واقعی ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہوجاؤ ۔ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔

سورۃ البقرۃ: 278،279

  • ان تمام کمپنیوں کے طریقہ کار میں غرر (دھوکا) بھی پایا جاتا ہے۔ ہر کمپنی میں دھوکا دہی کا طریقہ الگ الگ ہوتا ہے ۔ لیکن ایک قدر مشترک ہے کہ ممبر بنانے والا بظاہر کمپنی کی کوئی پروڈکٹ فروخت کر رہا ہوتا ہے جبکہ حقیقت میں اس کا مطمح نظر اس ممبر کے کے ذریعے کمیشن کا حصول ہوتا ہے۔ اور کمپنی کی اشیاء کے ارزاں ہونے کے باوجود اسکی قیمت وقدر بڑھا چڑھا کر کمپنی کے مقرر کردہ نرخ کے مطابق بتائی جاتی ہے۔ جبکہ دھوکابازی کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے مال آپس میں باطل طریقوں  سے نہ کھاؤ۔

سورۃ النساء: 29

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ

بلا شبہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے دھوکے والی بیع سے منع فرمایا ہے۔

سنن ابی داود: 3376

  • بعض کمپنیوں کے طریقہ کار میں اسراف کا پہلو بھی پایا جاتا ہے کیونکہ  جو چیز کمپنی انتہائی مہنگے داموں اپنے ممبر کو فروخت کرتی ہے کھلے بازار (اوپن مارکیٹ) میں اسکی قدر انتہائی ارزاں ہے۔  اور عام استعمال کی اشیاء بازار میں سستے داموں دستیاب ہونے کے با وجود صرف کمیشن کی لالچ میں مہنگے داموں خریدی جاتی ہیں۔ اور ضرورت کی حلال شے میں ضرورت سے زائد خرچ کرنا اسراف (فضول خرچی) کہلاتا ہے۔ اور فضول خرچی کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالى کا اعلان ہے:

إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ

یقینا وہ اسراف (فضول خرچی) کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

سورۃ الانعام: 141، سورۃ الاعراف: 31

  • اس سارے ہیرپھیر میں ظلم بھی شامل ہوتا ہے کہ ایک تو کسی دوسرے کو دھوکہ دینا بھی ظلم ہے، اور سستی شے مہنگے داموں ایسی خوبیاں بتا کر فروخت کرنا جو اس میں نہ ہوں بھی ظلم ہے، اور نا جائز طریقے سے کسی کا مال کھانا یا اسکے کمیشن میں حصہ دار بننا بھی ظلم ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ان کمپنیوں کی مصنوعات کا معیار (کوالٹی) کسی مستند شخص یا ادارے کی تصدیق شدہ نہیں ہوتی۔ اللہ تعالى کا فرمان ہے:

لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ

نہ تم ظلم کرو، نہ تم پہ ظلم کیا جائے۔

سورۃ البقرۃ: 279

نیز فرمایا:

يَا عِبَادِي إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي، وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا

اے میرے بندو! میں نے اپنے آپ پر ظلم حرام کیا ہے، اور تمہارے درمیان بھی اسے حرام ٹھہرایا ہے، لہذا ایک دوسرے پہ ظلم نہ کرو۔

صحیح مسلم :2577

 

درج بالا وضاحت کے نتیجے میں ملٹی لیول مارکیٹنگ کا حرام ہونا روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

 

  • الاثنين PM 09:13
    2023-01-30
  • 2931

تعلیقات

    = 1 + 3

    /500
    Powered by: GateGold