میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
گولڈن کی انٹرنیشنل
گولڈن کی انٹرنیشنل
(Golden key international)
محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ
ویسے تو کہا جاتا ہے کہ ملٹی لیول مارکیٹنگ کا طریقہ کار دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ کے ہارورڈ بزنس اسکول (Harvard Business School) نے متعارف کروایا تھا، تاہم پاکستان میں اس طریقے کو متعارف کروانے والے ’’گولڈن کی انٹرنیشنل‘‘ کے صدر جاوید مجید صاحب ہیں جنہوں نے 2002ء میں اس کمپنی کا پاکستان میں آغاز کیا۔ چونکہ اس طریقے پہ سب سے پہلی پاکستانی کمپنی ’’گولڈن کی انٹرنیشنل‘‘ ہے ۔ بعد میں آنے والی کمپنیاں بھی بنیادی طور پہ یہی طریقہ رکھتی ہیں، البتہ یہ ضرور ہے کہ علماء کے مسلسل رد و قدح کی وجہ سے مختلف کمپنیوں نے اپنے طریقے میں علماء کے اعتراض سے بچنے اور انہیں دھوکا دینے کے لیے کچھ تبدیلیاں کی ہیں، جن کی وضاحت آ جائے گی۔
’’گولڈن کی انٹرنیشنل‘‘ نے جو طریقہ اختیار کیا وہ کچھ یوں ہے کہ انہوں نے خود کو ایک تجارتی کمپنی کے طور پر متعارف کروایا جو چند چیزیں مہنگے داموں فروخت کرتی ہے۔ اس کمپنی کا رکن (ممبر) بننے کے لیے کم از کم 3000 کی وہ اشیاء خریدنا از بس ضروری ہے جو کمپنی نے مہیا کر رکھی ہیں۔اور اسکے ساتھ ساتھ کمپنی کا ممبر بننے کے لیے 1500 روپے کا ممبر شپ کارڈ حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ گویا 4500روپے خرچ کرکے ہی کوئی شخص اس کمپنی کا ممبر بن سکتا ہے۔ اور پھر اسے اپنی ہی رقم کے عوض 5 فیصد رقم بطور کمیشن واپس دے دی جاتی ہے۔ اس کے بعد یہ ممبر اگر مزید ممبر بھرتی کروائے تو اسے ہر نئے ممبر کے عوض 3300 پوائنٹ دیے جاتے ہیں جنہیں بزنس والیم (BV) کہا جاتا ہے۔ پھر جب ایک ممبر کے پوائنٹس 10000 سے تجاوز کر جائیں تو اسے ممبر کے بجائے سپروائزر (S.V) کا عہدہ دیا جاتا ہےاور اس کے ذریعے آنے والے ہر نئے ممبر کی اس رقم سے 15 فیصد کمیشن اسے دیا جاتا ہے جس رقم سے اس نئے ممبر نے کمپنی کی اشیاء خریدی ہوں۔ پھر جب مزید پوائنٹس نئے ممبرز بھرتی کروانے سے ملتے ہیں ا ور اس کا بزنس والیم 60000 تک جا پہنچتا ہے تو اسے مینجر (M.N) کا درجہ دیا جاتا ہے اور اس کے توسط سے آنے والے ہر نئے رکن کے عوض اسے 25 فیصد کمیشن دیا جاتا ہے۔ اور جب بزنس والیم 240000 ہو جائے تو اسے ڈائریکٹر (D.I) کا رتبہ ملتا ہے اور کمیشن 35 فیصد ہو جاتا ہے بشرطیکہ اس سے نیچے اسکے توسط سے بننے والے دو مینجر موجود ہوں۔ اور جب بیس لاکھ بزنس والیم ہو جائے تو اسے ایگزیکٹو ڈائریکٹر (EX.D) کی سیٹ ملتی ہے اور کمیشن 43 فیصد ہو جاتا ہے بشرطیکہ اس کے ماتحت چھے ڈائریکٹر موجود ہوں۔
ہر ممبر کے 3300 بزنس والیم تو ممبر شپ حاصل کرتے ہی بن جاتے ہیں ، پھر ہر ممبر بھرتی کروانے پہ اسے 3300 وی بی دیے جاتے ہیں ، لیکن پہلے دو ممبرز بھرتی کروانے پہ اسے کوئی بھی کمیشن نہیں دیا جاتا، صرف وی بی ہی ملتے ہیں۔ اس کے لیے وہ یہ اصول بنائے ہوئے ہیں کہ جہاں ممبر لیول کے مختلف لوگ جمع ہوں وہاں کسی کو بھی کمیشن نہیں ملے گا۔ پھر جب یہ تیسرا ممبر بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اسے 15 فیصد کمیشن دی جاتی ہے اور بھی 5 فیصد کٹوٹی کے ساتھ یعنی صرف 10 فیصد اور یہ دس فیصد بھی نئے ممبر کے حساب یعنی 3300 روپے کے حساب سے 330 روپے ۔یہ نہایت پیچیدہ طریقہ کار ہے اسے آسانی سے سمجھنے کے لیے اس مثال پہ غور فرمائیں:
ممبر (الف) نے جب پہلے تین ممبر جمع کر لیے تو اس کا بزنس والیم 10000 سے بڑھ گیا اور اسے S.V کا درجہ مل گیا اب S.V کے بعد آگے جتنے مزید ممبر اس کی چین میں داخل ہونگے انکے 3300 میں سے 10 فیصد S.V کو ملے گا، لیکن اگلا ممبر نئے ممبر بنا کر S.V کا درجہ حاصل کرچکا ہو یا 14000 کی خریداری کرکے براہ راست S.V کا درجہ پا لے تو پہلے S.V کو کوئی کمیشن نہیں ملے گا کیونکہ کمپنی کا اصول ہے کہ ایک ہی لیول کے دو افراد ایک دوسرے کی کمیشن وصول نہیں کرسکتے۔ پھر نئے S.V نے آگے مزید ممبر بنائے اور ان میں مزید S.V بھی شامل ہوگئے تو اب ان سے آگے بننے والے ممبر کا کمیشن صرف اس S.V کو ملے گا جو نئے ممبر سے قریب تر ہے اور دور والے S.V کو محروم کر دیا جائے گا۔ البتہ اگر پہلے سے موجود S.V کا بزنس والیم مینجر یا ڈائریکٹر کے درجے کو پہنچ جائے تو پھر اسے طے کردہ کمیشن کے مطابق ہر نئے ممبر کی خریداری پر کمیشن ملے گا۔
اس مثال سے واضح ہوتا ہےکہ یہ طریقہ کار انتہائی مشکل ہے اور اسکا فائدہ صرف اسی شخص کو حاصل ہوتا ہے جو آغاز میں کمپنی کا ممبر بن کر سرگرم عمل ہو جائے اور مسلسل نئے ممبرز کا نیٹ ورک بڑھاتا جائے۔ اور اگر نئے ممبر نہ بنا سکے یا نئے ممبرز رکنیت حاصل کرنے کے بعد کنارہ کش ہو جائیں تو پہلے سے موجود ممبرز کو کمپنی کی طرف سے کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔
شرعی حکم:
اس سارے طریقہ کار میں کئی قباحتیں واضح ہیں:
- کارڈ جاری کرنے کے نام پہ 1500 روپے کی اضافی رقم ہر ممبر سے جو لی جاتی ہے یہ بلا عوض ہے! اور صریح ظلم اور دھوکا ہے۔ کیونکہ نہ تو یہ رقم کاغذات یا کارڈ کی قیمت ہے، اور نہ ہی سہولیات کا عوض ہے کہ جو ممبر سہولیات نہ بھی لینا چاہے یہ رقم اس سے بھی وصول کی جاتی ہے، اور نہ ہی یہ کاروبار میں شراکت کی مد میں ہے کیونکہ اس رقم کے عوض کمپنی ممبر کو نفع یا نقصان میں شریک نہیں کرتی۔ یہ محض ظلم، جوا، اور مشروط سود کی صورت ہے جیسا کہ ہم اپنے مضمون (ملٹی لیول مارکیٹنگ کی شرعی حیثیت) میں واضح کر آئے ہیں۔
- اس طریقہ کار میں بنیادی طور پہ دو ممبرز لازما بھرتی کروانا ہوتے ہیں ، جس کے بعد اسے کمیشن ملنا شروع ہوتا ہے۔ اور اگر یہ دو ممبرز بھرتی کروا کر بیٹھ رہے اور اسکے بنائے گئے ممبرز کام کرتے جائیں تو بھی اسے مسلسل کمیشن ملتا رہے گا جو اسکے بنائے گئے ممبرز کی محنت کا صلہ ہوگا۔ اور یہ بھی نا جائز ہے ، جیسا کہ مذکورہ مضمون میں اسکی وضاحت ہو چکی ہے۔
- کمپنی کی انتہائی مہنگی مصنوعات جو کہ اپنی اصل قدر سے بھی مہنگی ہیں خریدنا لازم ہے۔ اور اکثر ممبرز یہ مصنوعات استعمال کے لیے نہیں بلکہ کمپنی جوائن کرنے کے لیے خریدتے ہیں۔ یعنی یہ بیع المضطر (مجبور کی بیع) بھی ہے۔ جو کہ ظلم ہونے کی وجہ سے شرعا ناجائز ہے۔
- اور اس کے ساتھ ساتھ سستی اشیاء کے اتنا مہنگاکرکے فروخت کرنے کی وجہ سے ناجائز منافع خوری بھی ہے، اور اس پہ مستزاد کہ کمپنی اپنی اشیاء اوپن مارکیٹ میں نہ ڈال کر احتکار (ناجائز ذخیرہ اندوزی) کی بھی مرتکب ہے جو کہ شرعا حرام ہے۔ اور کمپنی ممبران اس گناہ وزیادتی کے کام میں کمپنی کے معاون ومددگار ہیں۔
- کمپنی کی صراحت کے مطابق یہ ایسی تجارت ہے جس میں خسارے کا کوئی امکان نہیں اپنے لٹریچر پہ بھی انہوں نے No Risk کی واضح بات کی ہے۔ اور یہ سراسر سود ہے، اسے تجارت یا منافع یا کمیشن قرار دینا سوائے جہالت یا تجاہل کے کچھ بھی نہیں! کیونکہ تجارت میں کبھی محض نفع نہیں ہوتا، بلکہ یہ سود میں ہوتا ہے۔ یہاں بھی مختلف درجات ہیں جن پہ فکس منافع ہے۔
- اس کمپنی کے ممبر کو اپنے کمیشن کے حصول کے لیے بینک اکاؤنٹ کھلوانا لازم ہوتا ہےجس میں کمپنی اس ممبر کا حصہ منتقل کرتی رہے۔ اور مروجہ بینکاری نظام کے سودی ہونے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔
-
الاثنين PM 09:48
2023-01-30 - 1374